1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا عمران خان سیاسی بحران سے نکل پائیں گے؟

بینش جاوید
29 مارچ 2022

حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ وزیر اعظم کے ان اتحادیوں کو اپنے جانب مائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ممکنہ طور پر حکومت کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/49ASU
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

پاکستانی اپوزیشن کے قانون سازوں نے پیر کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی ہے۔ خان کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس تحریک کو ناکام بنائیں۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی ہے۔ اس موجودہ سیاسی صورتحال پر لاہور سے صحافی اجمل جامی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''قانون اور آئین میں تحریک عدم اعتماد کا پیش کرنا موجود ہے لہٰذا یہ غیر آئینی نہیں۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناپسندیدہ عمل ہے، جس شخص کو مینڈیٹ ملا ہے اسے پانچ سال پورے کرنے چاہییں۔ عوام اگر پانچ سال بعد اس کا احتساب کرے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔''

 اجمل جامی مزید کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ وہ نہ جھکنے والے ہیں اور نہ ہی بلیک میل ہوتے ہیں بلکہ اصولوں  پر ڈٹے رہتے ہیں، ''تجزیہ کار کہتے رہے کہ اگر یہ اپنی سیاست میں تھوڑی سی لچک پیدا کریں تو عمران خان کے لیے اپنی پارٹی کے اراکین اور اتحادیوں کو مینیج کرنا زیادہ آسان ہو جائے  گا۔ اب جب بالآخر انہوں نے لچک پیدا کر لی اور جب ان کے بقول پنجاب کی تاریخ کے سب سے کامیاب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا تو اب تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عمران خان بلیک میل ہو گئے ہیں۔‘‘

تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا ہے کہ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ معاملات طے پا جانے کے بعد عمران خان اس بحران سے نکل جائیں گے اور اگر وہ اس بحران نہ نکل پائے تو بھی وہ قومی اسمبلی کے رکن رہیں گے اور وہ بہت بڑی اپوزیشن کے سربراہ ہوں گے۔

جلسے و جلوسوں کا موسم: عوام پریشان

تحریک عدم اعتماد: کیا پاکستان معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے؟

اپوزیشن نے خان پر معیشت کو گرانے اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ عمران خان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم نے کبھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے لیے کم از کم 172 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے۔ مشترکہ اپوزیشن کی ایوان زیریں میں 163 نشستیں ہیں۔ لیکن یہ حزب اختلاف پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو اپنے ساتھ ملا کر عمران خان کے خلاف کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔

وزیراعظم خان نے پارٹی سے منحرف ہونے والے اراکین پر تاحیات پابندی عائد کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کر رکھی ہے اور ساتھ ہی ان سے حکمراں جماعت میں واپس آنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنی حمایت کا اظہار کریں۔ جامی کے مطابق اگر وقتی طور پر سپریم کورٹ ان اراکین کی رکنیت معطل کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ منحرف اراکین اپوزیشن کا ساتھ دیں لیکن اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا تو ناراض اراکین کے پاس عمران خان کا ساتھ دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہو گا۔

اجمل جامی کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بے یقینی کی کیفیت آخری دن تک بر قرار رہے گی۔ جامی کے مطابق،''مسلم لیگ ق نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ لے لی ہے اور حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن بلوچستان عوامی پارٹی نے کہا ہے کہ وہ اپوزیشن کا ساتھ دے گی۔اس طرح ایم کیو ایم کی اکثریت حکومت کے ساتھ جانا چاہ رہی ہے۔ کچھ آزاد اراکین بھی ہیں، جو اپوزیشن کے ساتھ دے سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم اس سارے معاملے میں فیصلہ کن جماعت ثابت ہو  گی۔‘‘