ہر چوتھا بالغ پاکستانی ذیابیطس کا شکار
14 مئی 2023بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق 220 ملین سے زائد کی آبادی والے پاکستان میں عام لوگوں کے طرز زندگی اور غذائی عادات کے باعث گزشتہ برسوں میں اس مرض کے پھیلاؤ میں تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ آئی ڈی ایف کے مطابق پاکستان کی آبادی میں بالغ شہریوں کی تعداد تقریباﹰ 124 ملین بنتی ہے لیکن ان میں سے تقریباﹰ 33 ملین ذیابیطس کی کسی نہ کسی قسم کے مریض ہیں۔
یوں پاکستان کے قریب 27 فیصد بالغ شہری اس بیماری کے مریض ہیں، جسے عرف عام میں شوگر کی بیماری کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا کم از کم بھی ہر چوتھا بالغ شہری اس بیماری سے متاثر ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے ڈیٹا کے مطابق 2021ء میں اس مرض نے 40 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان لے لی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے ہاں شوگر کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔
ذیابیطس کی بیماری ہے کیا؟
ذیابیطس یا diabetes ایک ایسی طبی حالت کا نام ہے، جس میں کسی بھی مریض کی اپنے خون میں گلوکوز کی سطح کو کنٹرول کرنے کی قدرتی صلاحیت اس حد تک متاثر ہو چکی ہوتی ہے کہ اس کا بلڈ شوگر لیول اکثر بہت زیادہ یا بہت کم بھی ہو جاتا ہے۔
امراض قلب، ذیابیطس اور سرطان پاکستان میں قبل از وقت اموات کی وجہ
بطور انسان ہماری خوراک میں کاربوہائیڈریٹس یا نشاستے، چکنائی اور پروٹین سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔ وہ جسمانی عمل جو ان غذائی اجزاء کو توانائی میں تبدیلی کر کے ہمارے جسم کا حصہ بناتا ہے، اسے میٹابولزم کہتے ہیں۔ جن بیماریوں کا تعلق میٹابولزم سے ہو، ان کو میٹابولک بیماریاں کہتے ہیں۔ ذیایبطس بھی ایک میٹابولک بیماری ہے، جو کسی بھی مرد یا عورت کے جسم میں کاربوہائیڈریٹس کے میٹابولزم کو متاثر کرتی ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق بھی ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہو چکی ہے اور ہر سال بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق پاکستان میں اس مسئلے کے شدید تر ہوتے جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بہت سے مریضوں میں اس بیماری کی تشخیص یا تو ہوتی نہیں یا پھر بہت دیر سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان، عوامی آگہی کی کمی اور طبی پیچیدگیاں بھی اس مرض کے پھیلتے جانے کی اہم وجوہات ہیں۔
راولپنڈی کی شمائلہ شیخ کی کہانی
راولپنڈی کی ساٹھ سالہ رہائشی شمائلہ شیخ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''مجھے بڑے عرصے بعد پتہ چلا کہ مجھے تو ذیابیطس ٹائپ ٹو کا سامنا تھا۔ ایک دن میں اچانک اپنے گھر میں گر کر بے ہوش ہو گئی۔ ہسپتال لے جایا گیا تو پتہ چلا کہ میری بلڈ شوگر بہت زیادہ تھی۔ تب تک میں سمجھتی تھی کہ مجھے صرف بلڈ پریشر ہی کے مسئلے کا سامنا تھا۔‘‘
شمائلہ شیخ نے بتایا، ''بے تحاشا مہنگائی کے دور میں ہزاروں روپے کے میڈیکل ٹیسٹ بار بار کون کرائے۔ اب میں اپنے معمولات زندگی میں تبدیلی کے لیے کوشاں ہوں۔ پانچ بچوں کو پڑھانا لکھانا اور پھر ان کی ملازمتوں اور شادیوں کے مسائل، ایسی پریشانیوں سے بھی ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کی شدت بڑھ جاتی ہے۔‘‘
اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون ون کے رہنے والے ہاشم خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میری عمر پینتیس برس ہے اور میں شوگر ٹائپ ون کا مریض ہوں۔ مجھے یہ بیماری ورثے میں ملی ہے۔ میرے والدین سمیت ہمارے پورے خاندان میں فربہ پن اور ذیابیطس کے کئی مریض ہیں۔ میرا ایک کزن ٹائپ ون شوگر کا مریض تھا اور اسے دن رات انسولین کے انجیکشن لگتے تھے، اس کا تو صرف اٹھارہ برس کی عمر میں ہی انتقال ہو گیا۔‘‘
ذیابیطس کی اقسام
اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ فار میڈیکل سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر عاطف انعام شامی باریئٹرک (Bariatric) سرجری کے ماہر ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں اس مرض کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بنیادی طور پر ذیابیطس کی دو اہم اقسام ہیں: ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں کسی بھی انسان کا جسمانی مدافعتی نظام غلطی سے لبلبے میں انسولین پیدا کرنے والے خلیوں پر حملہ کرتا اور انہیں تباہ کر دیتا ہے۔ اس لیے ٹائپ ون کے مریضوں کو اپنا بلڈ شوگر لیول منظم رکھنے کے لیے مستقل طور پر انسولین کے انجیکشن لگانا پڑتے ہیں یا انسولین پمپ استعمال کرنا پڑتا ہے۔‘‘
پاکستان سوسائٹی فارمیٹابولک اینڈ باریئٹرک سرجری کے بانی ڈاکٹر عاطف انعام شامی کے بقول پاکستان میں 90 فیصد مریض ٹائپ ٹو ذیابیطس کے ہیں۔ ان میں اس بیماری کا تعلق ان کے طرز زندگی، فربہ پن، جسمانی سرگرمیوں اور غذائی عادات سے جڑے عوامل سے ہوتا ہے۔
اس لیے ایسے مریضوں میں اس بیماری کو بہتر اور صحت مند طرز زندگی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر شامی نے کہا، ''کئی مریضوں کو انسولین کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ذیابیطس کا مرض کئی دیگر بیماریوں کی وجہ بھی بنتا ہے، جیسے دل، جگر، گردوں، دماغ اور آنکھوں کی بیماریاں۔ اس کے علاوہ شوگر کے مریضوں میں فالج، ٹانگوں پر زخموں اور سرطان کے خطرات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
میٹھے مشروبات اور پہلے سے تیار شدہ غذائی مصنوعات
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی انسان کی عمر جیسے جیسے زیادہ ہوتی ہے، اس کی جسمانی سرگرمیاں کم ہوتی جاتی ہیں مگر خوراک اور غذائی عادات تبدیل نہیں ہوتیں۔ طبی ماہرین کے مطابق چینی سے بنی میٹھی اشیاء، میٹھے مشروبات، فاسٹ فوڈ اور پروسسیڈ فوڈ لبلبے کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شامی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اور پاکستان میں بھی زیادہ تر عوام، خاص طور پر نوجوانوں میں کھانے پینے کی ایسی مصنوعات کے استعمال کا رجحان بہت زیادہ ہے، ''یہ طرز زندگی خطرناک ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کو تو روزانہ کم ازکم آدھ گھنٹے تک جسمانی ورزش کرنا اور غذائی حوالے سے لازمی احتیاط برتنا چاہیے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بیماری کا سامنا ہو تو اس کا علاج تو کروانا ہی چاہیے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے، بہت سے لوگ محض اپنی بد پرہیزی کی وجہ سے بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس مد میں شعور و آگاہی اجاگر کرنے کے لیے وہ اب تک تین انٹرنیشنل کانفرینس بھی منعقد کروا چکے ہیں۔
موٹاپا اور باریئٹرک سرجری
ذیابیطس کی بیماری کا موٹاپے سے بھی گہرا تعلق ہے۔ بہت سے انسان صرف زیادہ جسمانی وزن کے باعث ہی آہستہ آہستہ اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فربہ پن کے شکار انسان بھوک لگنے پر خوراک بھی زیادہ کھاتے ہیں۔ اس کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک خاص طرز کی سرجری کا بھی کافی زیادہ رجحان ہے، جس میں کسی بھی انسان کے معدے اور نظام ہضم میں ایسی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں کہ اسے بھوک کم لگے۔ اس عمل کو میٹابولک سرجری یا باریئٹرک سرجری کہتے ہیں۔
باریئٹرک سرجری کے ماہر ڈاکٹر شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے ایسی سرجری زیادہ تر موٹاپے کے علاج کے لیے کی جاتی تھی۔ اب دیکھا گیا ہے کہ فربہ پن کے شکار جن مریضوں کی ایسی سرجری کی گئی، ان میں سے بہت سے افراد میں ٹائپ ٹو ذیابیطس بھی چند ہی ہفتوں کے دوران کنٹرول ہو گئی۔ آٹھ دس سال پہلے کے مقابلے میں آج ایسی سرجری کروانے کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اور یہ بھی بالواسطہ علاج کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر عاطف انعام شامی کے الفاظ میں، ''بیمار ہو کر ادویات کھانے سے کہیں اچھی بات یہ ہے کہ انسان اچھی طرح یہ دیکھ لے کہ وہ کیا کچھ کھا پی رہا ہے۔‘‘