1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر سے متعلق بیان، فاروق عبداللہ تنقید کی زَد میں

امجد علی29 نومبر 2015

’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پاکستان کے پاس اور بھارت کے زیر انتظام بھارت کے پاس رہے گا‘، اپنے اس بیان پر بھارتی زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی فاروق عبداللہ علیحدگی پسند کشمیری گروپوں کی کڑی تنقید کی زَد میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HEIY
کشمیری سیاستدان فاروق عبداللہتصویر: picture-alliance/dpa/F. Khan

بھارتی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق علیحدگی پسند گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ فاروق عبداللہ کا بیان زمینی حقائق سے بہت دور ہے۔ سخت گیر مؤقف کی حامل جماعت حریت کانفرنس کے رہنما سید علی شاہ گیلانی نے ایک بیان میں کہا ہے: ’’فاروق عبداللہ کا بیان بے معنی اور بعید از حقیقت ہے۔ کوئی ایک شخص اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ وہ کوئی تجویز (مسئلہٴ کشمیر کے حل کے لیے) پیش کرے۔‘‘

نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے جمعہ 27 نومبر کو کہا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آئندہ بھی پاکستان ہی کے پاس رہے گا جبکہ جموں و کشمیر بھارت کے پاس رہے گا اور یہ کہ جنگ کوئی آپشن نہیں ہے۔

میر واعظ عمر فاروق نے بھی، جو حریت کانفرنس کے ایک نسبتاً اعتدال پسند دھڑے کے سربراہ ہیں، سابق وزیر اعلیٰ کے بیان کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اسے ’تاریخی اعتبار سے غلط‘ قرار دیا ہے۔ اُن کی جماعت کے ایک ترجمان کا کہنا تھا: ’’کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شُدہ متنازعہ علاقہ ہے اور اس تنازعے کا حل صرف اور صرف تب ممکن ہے، جب اسے کشمیر میں بسنے والوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔‘‘

Indien Kaschmir Mirwaiz Umar Farooq
فاروق عبداللہ کو علیحدگی پسند لیڈروں کی تنقید کا سامنا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/F. Khan

اس ترجمان کے مطابق، ’’حریت ریاست جموں و کشمیر کے اُن تمام پانچ علاقوں کو پھر سے ایک کرنے کے حق میں ہے، جن میں کشمیر، جموں، لداخ، آزاد کشمیر (پاکستان کے زیر انتظام) ا ور گلگت بلتستان شامل ہیں‘‘۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ ’کسی بھی شخص کا ذاتی نقطہٴ نظر کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس مسئلے کے حوالے سے سیاسی اور تاریخی حقائق کو بدل سکتا ہے‘۔

کشمیر کی آزادی کے حق میں جدوجہد کرنے والی جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ JKLF کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہا کہ فاروق عبداللہ کا بیان ’غلامانہ ذہنیت‘ کی عکاسی کرتا ہے۔

دریں اثناء مقامی بھارتی میڈیا کے مطابق فاروق عبداللہ نے اپنے بیان پر ہونے والے ردعمل کے حوالے سے یہ کہا ہے کہ اُنہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ نئے نہیں ہیں۔ فاروق عبداللہ نے ایک قدم اور آگے جا کر یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی فوجیں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

فاروق عبداللہ کے بیٹے اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اپنے والد کے بیان کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا ہے کہ اُن کا ہمیشہ سے یہی نقطہٴ نظر رہا ہے۔

فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ علاقائی تنازعات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے دونوں طرف کے کشمیریوں کے مابین روابط بڑھائے جانے چاہیں:’’لوگوں کے مابین روابط ضروری ہیں، خوف کا مقابلہ اسی طرح سے کیا جا سکتا ہے۔‘‘