ریاست کے قیام کے بعد بادشاہت، Oligarchy (چند سَری حکومت) اور جمہوریت کو اختیار کیا گیا اور اِن کی بنیاد پر ریاستی ادارے تشکیل ہوئے۔ ڈِکٹیٹر شپ کو مستقل نظام کے طور پر اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ یہ جدید صدی کی پیداوار ہے۔
اگرچہ رومی سلطنت کے مضبوط انتظامی ادارے ہےتھے لیکن جنگ اور بحران کی صورت میں جب حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہےتھے، تو سیاسی ادارے امن و امان کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہےتھے۔
اس موقع پر رومی سینٹ کسی جنرل کو ڈِکٹیٹر بنا کر اُسے با اختیار بنا دیتے ہےتھے تا کہ وہ حالات پر قابو پائے اور انتشار کو دُور کرے۔ کیونکہ رومی اشرافیہ کا خیال تھا کہ طاقت اور سَزاؤں کے ڈر سے عام لوگوں کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ڈِکٹیٹر مستقل نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ امن و امان بحال کر لیتا تھا تو اُس سے تمام اختیارات واپس لے لیے جاتے ہےتھے۔
ڈاکٹر مبارک علی کی چند مزید تحریریں
میں نے تاریخ سے کیا سیکھا - ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر
فلورنس کی ریاست میں بھی یہ روایت تھی کہ سیاسی اور معاشی بحرانوں کے وقت باہر سے کسی جنرل کو دعوت دے کر اُسے پانچ یا چھ سال تک ڈِکٹیٹر بنا دیتے ہےتھے۔ مُدت ختم ہونے کے بعد اُسے واپس جانا ہوتا تھا۔ لیکن ایسا بھی ہوا کہ کچھ ڈِکٹیٹرز نے جب واپس جانا پسند نہیں کیا تو فلورنس کے شہریوں نے اُن کے خلاف تحریک چلا کر اُنھیں زبردستی نکالا۔
موجودہ دور میں ڈِکٹیٹر شپ کی تعریف بدل گئی۔ اُس کو بدلنے والا نپولین بوناپارٹ تھا۔ اِس نے 1799ء میں فوج کی مدد سے پالیمنٹ پر حملہ کر کے اُس کے اجلاس کو معطل کیا اور خود نے رومی روایت کے تحت 'فرسٹ کونسل‘ یا مشیر اول کا خطاب اختیار کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اپنی ڈِکٹیٹر شپ کو مستحکم کرنے کے لیے جو اقدامات کیے وہ آگے چل کر دوسرے ڈِکٹیٹر نے بھی اختیار کیے۔ مثلاً اُس نے اخبارات، رسالوں اور کتابوں پر سنسر شپ لگائی۔ وہ چھاپے خانے جو انقلابی لٹریچر چھاپتے ہےتھے اُنھیں بند کرا دیا۔ فرانسیسی انقلاب کے کئی قوانین کو رَد کیا۔ مثلاً غلامی کو قانونی قرار دیا گیا، عورتوں کے حقوق کو ختم کر دیا گیا اور افریقی باشندوں کو پیرس میں رہنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پھر وقت کے ساتھ نپولین نے خود کو شہنشاہ کے طور پر تسلیم کرایا۔
شہنشاہ ہونے کے بعد اس نے اُمراء کی نئی کلاس کی بنیاد رکھی جو اس کی وفادار تھی۔ اس کی طاقت کی بنیاد فوج پر تھی۔ لیکن اس نے فوج کو شہروں میں نہیں آنے دیا۔ جب اس نے یورپی مُلکوں میں فتوحات کیں تو مفتوحہ مُلکوں پر اپنے بھائیوں اور رشتے داروں کو حکمراں بنا دیا۔ اس کی یہ بھی خواہش تھی کہ مستقبل میں اُس کی نسل حکمراں رہے۔ اس لیے اس نے اپنی پہلی بیوی جوزیفینے کو طلاق دے کر ماری لاؤز سے شادی کی جس میں سے اُس کے ہاں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی۔ مگر وہ بیٹا نپولین کی زندگی ہی میں مر گیا۔
نپولین کی ڈِکٹیٹر شپ کو سیاسی ماہرین بونا پارٹیزم کہتے ہیں۔ اِس لیے جب بھی کوئی فوجی مہم جُو فوجی طاقت کے ذریعے حکومت کا تختہ اُلٹتا ہے تو اِسے بونا پارٹیزم کہا جاتا اور وہ اُسی پالیسی کو اختیار کرتا ہے جس پر نپولین نے عمل کیا تھا۔
اُنیسویں صدی میں ایک اور سیاسی اصطلاح کا استعمال کیا گیا۔ جو سیزرازم کہلائی۔ اس کا پسِ منظر یہ تھا کہ 1830ء اور 1848ء میں یورپ میں انقلابات آئے۔ جنہوں نے سیاسی انتشار کو پیدا کیا۔ 1871ء میں جرمنی مُتحد ہوا۔ اس کامیابی کا ذمّہ داراوٹو فان بسمارک کو قرار دیا گیا۔ بسمارک بنیادی طور پر سخت قدامت پسند تھا۔ لیکن عام لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے اُس نے فلاحی ریاست قائم کی۔ یعنی ڈِکٹیٹر شپ اس لیے ضروری ہے کہ یہ انقلاب کو روکتی ہے اور معاشرے کو انتشار سے بچاتی ہے۔
ڈِکٹیٹر شپ کو ہم لاطینی امریکہ کے مُلکوں میں دیکھتے ہیں۔ جو اسپین کی کالونیز تھے۔ یہاں اسپین کو حکومت کی جانب سے جو گورنر اور وائسرائے آتے تھے، وہ سیاسی طور پر مکمل با اختیار ہوتے تھے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتے تھے۔ اس کی مثال اَرجنٹائن، پیرو اور پیراگوئے میں مِلتی ہے، جہاں ڈِکٹیٹر شپ کے ذریعے مقامی باشندوں پر ظلم و ستم کر کے اُن کے ذرائع کی لُوٹ کھسُوٹ کی گئی۔
یورپ میں پہلی جنگِ عظیم کے بعد اِٹلی اور جرمنی سیاسی اور معاشی طور پر سخت مُتاثر ہوئے۔ اس کا ردِعمل اٹلی میں میسولینی اور اُس کی فاشِٹ پارٹی تھی۔ جو رومن سلطنت کی شان و شوکت کو واپس لا کر اپنی مایوسی اور ناکامی کا خاتمہ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اٹلی کے عوام کو ایک نئی زندگی دی اور میسولینی اُن کا ہیرو ہو گیا۔ جرمنی بھی پہلی جنگِ عظیم کے بعد جن مُشکلات میں مُبتلا ہوا وہ سیاسی بھی تھیں اور معاشی بھی۔ اس ماحول میں نازی پارٹی نے آریا نسل برتری کا نعرہ لگا کر شکست خوردہ قوم کو حوصلہ دیا۔ 1933ء کے الیکشن میں جب نازی پارٹی کامیاب ہوئی اور ہٹلر جرمنی کا چانسلر بنا تو اُس نے ڈِکٹیٹر شپ کے تمام اختیارات کو استعمال کیا۔ اس نے جرمنی کی معیشت کو سنبھالا اور سیاسی انتشار دور کیا، تو اس کے نتیجے میں اس نے جرمن عوام کی حمایت حاصل کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ ڈِکٹیٹر شپ کو اس لیے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ اس میں وہ اپنا تحفظ اور امن کی زندگی دیکھتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ نے میسولینی اور ہٹلر دونوں کی ڈِکٹیٹر شپ کا خاتمہ کیا لیکن اس سے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں نے سبق نہیں سیکھا۔
افریقی مُلکوں میں کلونیل ازم کے خاتمے کے بعد جمہوریت کی جگہ ڈِکٹیٹر شپ نے لے لی۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ کلونیل حکومتوں نے ان مُلکوں کے ذرائع کو تو لوٹا مگر اِن کی کوئی تربیت نہیں کی۔ تعلیم کی کمی، قبائلی معاشرہ، کلونیل حکومتوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ آزادی کے بعد افریقی ملکوں کے راہنماؤں نے ڈِکٹیٹر شپ کے ذریعے معاشروں کو منظم کرنے کی کوشش کی، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
ایشیائی ملکوں میں بھی جہاں جہاں ڈِکٹیٹرز آئے اُن مُلکوں کی سیاسی اور معاشی ترقی رُک گئی اور اُن کے معاشرے پسماندگی کا شکار ہو گئے۔
جدید ڈِکٹیٹر شپ میں قانون کے ذریعے لوگوں کی آزادی پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ذہنی ترقی رُک جاتی ہے۔ لوگ ڈر اور خوف کی زندگی گزارتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اَدب، آرٹ، موسیقی اور سماجی علوم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ صرف ٹیکنالوجی کی سرپرستی کی جاتی ہے، کیونکہ یہ ڈِکٹیٹرز کے لیے خطرناک نہیں ہوتی۔ ڈِکٹیٹر شپ کے خاتمے کےلیے تعلیم اور جمہوری اداروں کا فروغ ضروری ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔