1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی ایم پر تنقید کا طوفان: سیاست دانوں کا اظہار افسوس

عبدالستار، اسلام آباد
10 مارچ 2020

قومی اسمبلی کے ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر کے دورہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ تاہم پاکستانی سیاستدانوں نے انہیں ’ملک دشمن‘ قرار دینے کے رجحان کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3ZAEZ
Pakistan | Ali Wazir | Mohsin Dawar | PTM
تصویر: Reuters/A. Soomro

واضح رہے کہ پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ اور علی وزیر دوسرے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ افغان صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے گزشتہ روز ( پیر) کابل پہنچے تھے۔ پی ٹی ایم کے کارکنان نے ان کے پرتپاک استقبال کی ویڈیوز اور تصاویر کو سوشل میڈیا پر پرجوش انداز میں شیئر کیا، جب کہ پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا نے اس استقبال پر تنقید کے نشتر چلائے۔ چند پاکستانی ٹی وی چینلز نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ''پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو افغان خفیہ ادارے، جسے این ڈی ایس کے نام سے جانا جاتا ہے، کے طیارے میں طور خم سے کابل پہنچایا گیا۔‘‘ جب کہ ان کی افغانستان کے نائب صدر اور این ڈی ایس کے سابق سربراہ امر اللہ صالح سے ملاقاتوں اور ان کے ساتھ لی جانے والی تصویروں کا بھی ملک میں خوب چرچا ہے۔

تاہم پاکستانی سیاست دان اراکین پارلیمان کو ملک دشمن قرار دینے کے اس رجحان کو نامناسب قرار دیتے ہیں۔ ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے خود مداخلت کر کے ان کو کابل بھیجھنے میں مدد کی ہے، ''تو اگر کوئی تنقید ہے تو وہ وزیر اعظم پر کی جائے۔ میرے خیال میں ایسی تنقید ملک کے لیے اچھی نہیں ہے۔ وہ دیگر اراکین پارلیمان کے ساتھ افغانستان گئے ہیں، جو ایک معمول کی بات ہے۔ سیاست دانوں کے دوسرے ممالک میں سیاسی تعلقات ہوتے ہیں اور ممالک ان کو مثبت انداز میں استعمال کرتے ہیں۔‘‘

انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستانی اس وقت خوش نہیں ہوتے جب کوئی امریکی رکن کانگریس پاکستان کی تعریف کرتا ہے، ''کیا اس تعریف کے نتیجے میں اس امریکی رکن کو امریکی حکومت ایجنٹ، غدار یا ملک دشمن کا خطاب دیتی ہے؟ برطانوی رکن پارلیمنٹ بھی کئی مواقع پر پاکستان کی تعریف کرتے ہیں اور ان پر بھی ایسے کوئی الزامات لگائے نہیں جاتے۔ اگر ہمارے اراکین کے کسی ملک سے سیاسی تعلقات ہیں تو ہمیں ان کی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن یہ الزامات لگانے کا رجحان کسی طرح بھی مثبت نہیں۔‘‘

Afghanistan Kabul Vereidigung Präsident Ashraf Ghani
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

واضح رہے کہ پاکستان میں ملک دشمنی کے الزامات لگانے کا رواج بہت پرانا ہے۔ ماضی میں بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سمیت کئی سیاست دانوں، شاعروں اور ادیبوں پر اس نوعیت کے الزامات لگے۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ اب اس طرح کے فتوے بند ہونے چاہئیں۔ پی پی پی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری منظور نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر کسی کے پاس ان کی ملک دشمنی کا کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لائے۔ اس طرح ملک دشمنی یا غداری کے فتوے لگانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ یہ مثبت رجحان نہیں ہے۔ اس سے ملک کو نقصان ہوتا ہے۔‘‘

دوسری جانب معروف دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کے خیال میں پی ٹی آئی اور عدالتوں کی طرف سے پی ٹی ایم کی طرف نرمی دکھائی جا رہی ہے، جو ملک کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔ انہوں نے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا، ''محسن داوڑ اور پی ٹی ایم کو را کے ذریعے فنڈنگ ہوتی ہے اور یہ فنڈنگ حیسن حقانی کرتا ہے اور وہ ان لوگوں کو دعوتیں بھی دیتا ہے۔‘‘

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پی ٹی آئی اور عدالتوں نے اپنا رویہ درست نہیں کیا تو پھر ملک کے لیے مزید مشکلات بڑھیں گی، ''کیا پی ٹی آئی کو یہ نظر نہیں آرہا کہ ان کا بیانیہ کیا ہے؟ وہ اس بیانیے کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے۔ الٹا وزیراعظم کہتے ہیں کہ ان کے مطالبات صحیح ہیں۔ ان کے سارے مطالبات منظور کر لیے ہیں۔‘‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفے اس بات پر نالاں ہیں کہ پی ٹی ایم کے رہنماوں کے نام ای سی ایل سے کیوں نکالے گئے، ''یہ تو کوئی طریقہ نہیں کہ وزیراعظم مداخلت کر کے لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکلوائیں۔ انہیں بالکل نام نکلوانے نہیں چاہیے تھے۔ افغان حکومت نے آفتاب شیر پاو کے علاوہ تمام ایسے افراد کو دعوت دی ہے، جو فوج دشمن بیانیہ رکھتے ہیں۔ یہ بیانیہ امر اللہ صالح کا بیانیہ ہے۔ حکومت کو پی ٹی ایم کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے کیونکہ یہ پختونوں میں قوم پرستانہ اور علحیدگی پسندانہ جذبات بھڑکا رہے ہیں۔ پختون محب وطن ہیں اور ان کے درمیان ایسے جذبات بھڑکانے کی پی ٹی ایم والوں کو اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔‘‘