1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان گیارہ سے پندرہ برس کے بچوں کے لیے بہت پُرخطر‘

27 جنوری 2018

پاکستان میں ہر روز اوسطاً گیارہ بچوں اور بچیوں کو ریپ اور گینگ ریپ سمیت جنسی استحصال اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سالانہ قریب سو نابالغ پاکستانی لڑکے لڑکیوں کو ریپ کے بعد قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2rcNV
Pakistan Bildungslücken im Land
تصویر: Reuters/C. Firouz

بچوں اور بچیوں کے اغوا، ریپ، جنسی استحصال اور پھر قتل جیسے جرائم کے پولیس کو رپورٹ کیے گیے واقعات سے متعلق سالانہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے گیارہ سے پندرہ برس تک کی عمر انتہائی پُرخطر ہو چکی ہے۔ اس کے بعد انہی بچوں اور بچیوں کی ان کے خلاف جنسی جرائم کے حوالے سے قومی ڈیٹا کے مطابق دوسری خطرناک ترین عمر چھ سے گیارہ برس تک کے درمیان ہے۔

اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار محض پولیس کو رپورٹ کیے گیے ایسے جرائم کے ہیں جبکہ ایسے بہت سے جرائم کے مقدمات درج کرائے ہی نہیں جاتے۔ یوں پاکستان میں مستقبل کے معمار قرار دیے جانے والے نابالغ بچوں اور بچیوں کے خلاف اس نوعیت کے جنسی جرائم کی اصل سالانہ تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔

کیا زینب قتل کیس سیاسی موضوع بن چکا ہے؟

’زینب کا مشتبہ قاتل پڑوس ہی میں رہتا تھا‘

شرمندگی کا مطالبہ مظلوم خواتین سے ہی؟

پاکستان میں بچوں کے تحفظ لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساحل کے سینئر پروگرام افسر برائے میڈیا ممتاز گوہر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا، ''شہر قصور میں زینب انصاری نامی جس سات سالہ بچی کو حال ہی میں ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، اور جس کا مبینہ قاتل چند روز قبل گرفتار بھی کر لیا گیا، ایسے جرائم کو روکنا صرف کسی ایک فرد یا ادارے کا کام نہیں بلکہ یہ معاشرے کے ہر طبقے کی ذمے داری ہے۔‘‘

’بچیوں کے تحفظ کے لیے ضرب عضب جیسے آپریشن کی ضرورت ہے‘

خامیاں کہاں کہاں ہیں؟

ساحل سے وابستہ ممتاز گوہر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پہلے تو بچوں کو باور کرایا جانا چاہیے کہ انہیں کیسے ہر وقت چوکنا رہنا چاہیے۔ اس کے بعد پاکستانی اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ایسے جرائم کے خلاف بچوں کو زیادہ باشعور بنایا جا سکے۔

ممتاز گوہر کے مطابق، ''پاکستانی معاشرے میں کوئی بھی مظلوم عام طور پر ایک دو نہیں بلکہ سالہا سال تک اپنے لیے انصاف کی خاطر عدالتوں کے چکر لگاتا رہتا ہے۔ اس لیے عدالتی نظام میں بہتری کے ساتھ ساتھ ایک ایسے تفتیسی نظام کی بھی اشد ضرورت ہے، جس کے ذریعے کمزور ایف آئی آر اور کمزور عدالتی فیصلوں سے بچا جا سکے۔‘‘

ممتاز گوہر کے بقول سن دو ہزار سولہ میں پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی، اغوا، قتل، گمشدگی اور ان کی جبری شادیوں کے کل سوا چار ہزار کے قریب کیس رجسٹرڈ کیے گئے اور یہ تعداد اس سے ایک سال قبل سن دو ہزار پندرہ کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ تھی۔ اس کے بعد گزشتہ برس یعنی دو ہزار سترہ کی صرف پہلی ششماہی میں پولیس کو ایسے جرائم کے 1764 مقدمات درج کرائے گئے۔ صرف چھ ماہ کے عرصے میں ان جرائم میں باسٹھ نابالغ بچوں اور بچیوں کو ریپ کے بعد قتل بھی کر دیا گیا۔

سالانہ سو سے زائد بچوں کا ریپ اور قتل

اس حوالے سے سالانہ اوسط کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی، اغوا اور ان کے قتل کے مجموعی طور پر قریب ساڑھے تین ہزار واقعات رونما ہوئے اور ان میں سوا سو کے قریب ایسے کم عمر لڑکے لڑکیاں بھی شامل تھے، جنہیں ریپ کے بعد انتہائی بے دردی سے قتل بھی کر دیا گیا تھا۔ ملکی سطح پر ان جرائم کی ضلعی بنیادوں پر سالانہ تعداد کے لحاظ سے ایسے سب سے زیادہ جرائم قصور میں ہوئے، جس کے بعد دوسرے نمبر پر صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور رہا۔

بچوں کے تحفظ کے لیے سرگرم پاکستانی غیر سرکاری تنظیم ساحل ملک کے نوے سے زائد اخبارات میں ایسے جرائم کی خبروں اور پولیس کو درج کرائی گئی رپورٹوں کی بنیاد پر ہر چھ ماہ بعد اپنی ایک رپورٹ جاری کرتی ہے۔ یہ رپورٹ 'ظالمانہ اعداد و شمار کی دستاویز‘ کہلاتی ہے۔ ایسی تازہ ترین رپورٹ گزشتہ برس کی پہلی ششماہی میں ملک بھر میں ایسے جرائم کا احاطہ کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پچھلے برس یکم جنوری سے لے کر تیس جون تک ملک میں نابالغ بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے جو 1764 واقعات رپورٹ ہوئے، ان میں 1067 واقعات میں لڑکیوں اور 697 واقعات میں لڑکوں کو جنسی جرائم کا نشانہ بنایا گیا۔

قصور سانحے کے بعد مقامی افراد کا ردعمل

سب سے زیادہ خطرہ کن بچے بچیوں کو؟

اس ڈیٹا سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ پاکستانی معاشرے میں ابھی تک کم عمر بچوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیاں کہیں زیادہ تعداد میں جنسی جرائم کا نشانہ بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان جرائم کا شکار بن جانے کے امکان کے لحاظ سے پاکستانی بچوں اور بچیوں کے لیے گیارہ سے لے کر پندرہ برس تک کی عمر بہت پُرخطر بن چکی ہے، جبکہ دوسرا سب سے پُرخطر گروپ چھ سے لے کر گیارہ برس تک کی عمر کے لڑکے لڑکیوں کا ہے۔

ایک اور پریشان کن بات یہ بھی تھی کہ گزشتہ برس جنوری سے جون تک کے چھ ماہ کے عرصے کے دوران جو نابالغ بچے طرح طرح کے جنسی جرائم کا نشانہ بنے، ان میں سے 645 واقعات میں تو پولیس نے رپورٹ درج کرتے ہوئے متاثرہ بچوں کی عمروں کا ایف آئی آر میں کوئی ذکر ہی نہیں کیا تھا۔

قانون کے مطابق سزا کیا؟

اگر کسی ملزم پر پہلے ریپ اور پھر قتل کے الزامات ثابت ہو جائیں، تو اسے کیا سزا سنائی جاتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے جب بات کی پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود سے، تو انہوں نے بتایا کہ ریپ کے ساتھ اگر قتل بھی ثابت ہو جائے تو اس کی سزا موت ہوتی ہے۔

طارق محمود نے مزید کہا، ''ہماری معاشرتی سوچ یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکا، لڑکی، مرد یا عورت ایسے کسی جرم کا شکار ہو جائے، تو مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے بدنامی کا خوف زیادہ ہوتا ہے۔ اسی بدنامی کے ڈر سے بہت سے جرائم رپورٹ ہوتے ہی نہیں۔ مظلوم کو ہمدردی کی جگہ طنز اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

سماجی مسئلے پر 'دوکانداری‘ کا پہلو

زینب انصاری ریپ اور قتل کیس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا کہ یہ جرم بھی دیگر جرائم کی طرح انتہائی قابل مذمت ہے، ''لیکن ایک بڑے سماجی مسئلے کے طور پر تعمیری بحث کرنے کے بجائے اس پر سیاسی دوکانداری کی کوشش بھی کی گئی۔ اور پھر ملزم ابھی پکڑا بھی نہیں گیا تھا کہ کئی ٹی وی چینل بہت سے افراد کے نام اور چہرے دکھاتے جا رہے تھے جو انتہائی غلط بات ہے۔‘‘

پاکستان میں کیا یہ عوامی رجحان موجود ہے کہ ریپ کا شکار ہونے والا کوئی بھی شہری دراصل مظلوم ہوتا ہے اور اسے مدد کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ خاص طور پر لڑکی یا عورت ہونے کی صورت میں اسے تنہا چھوڑ دیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا، ''ایسا کوئی عوامی رجحان ہمارے ہاں تو موجود ہی نہیں۔ بلکہ عمومای طور پر مظلوم کا سہارا بننے کے بجائے اس کو بالکل تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘‘

ایک بیٹی ریپ ہوئی تو دوسری کو طلاق ہو گئی

راولپنڈی کے رہائشی ایک شہری نے، جس کا خاندان اس المیے سے گزر چکا ہے، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دو سال پہلے اس کی دس سالہ بیٹی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس شہری نے بتایا، ''وہ ملزم اور پورا معاشرہ دونوں قصور وار ہیں۔ میری ایک بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی تو دوسری کو اس واقعے کے بعد بدنامی کی وجہ سے طلاق ہو گئی۔ میری پھول سی بیٹیاں مرجھا گئی ہیں۔ اسی غم میں ان کی ماں بھی مر گئی۔ ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا، اس وجہ سے کہ ہم بہت غریب ہیں۔ کون سی پولیس اور کون سی حکومت؟ ہمارا تو ہنستا بستا گھر ہی اجڑ گیا۔‘‘

بچے سب سے غیر محفوظ طبقہ

بچوں سے جنسی زیادتی جیسے جرائم کی وجہ بننے والی ذہنیت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ اس بارے میں سماجی رویوں پر گہری نگاہ رکھنے والی ماہر نفسیات ثانیہ اختر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''معاشرے کا سب سے غیر محفوظ طبقہ بچے ہوتے ہیں، جو بڑوں کی دنیا میں رہنے کا ہنر اور اپنی معصومیت کی وجہ سے اپنی حفاظت کے تقاضوں کی کافی سمجھ نہیں رکھتے۔ بڑوں کی طرح بچوں میں بھی چھٹی حس تو ہوتی ہے لیکن ان میں تکلیف دہ اور جان لیوا خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔‘‘

ثانیہ اختر نے کہا، ''جنسی استحصال کے پہلو سے تو نابالغ بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ مذہب اور سماجی روایت کے باعث بچوں سے اس موضوع پر بات نہیں کی جاتی۔ اسکولوں میں بچوں کو سیکس ایجوکیشن نہیں دی جاتی۔ اسی لیے سالانہ ہزاروں پاکستانی بچے جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت تکلیف دہ ہے، لیکن وجوہات دیکھیں تو حیران کن نہیں۔‘‘

ثانیہ نے مزید کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر پورا زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ ملزم کو پکڑ کر جیل بھیج دو یا پھانسی پر لٹکا دو، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ نفسیاتی اسباب کا تعین کر کے ان کا تدارک کیا جانا چاہیے۔ زینب کیس پر جس طرح پورے ملک میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم سمجھا گیا، وہ ایک مثبت سماجی پہلو ہے۔

Pakistan Special Report Vergewaltigungen | Polizeistation in Islamabad
ایسے بہت سے جرائم کی پولیس کو رپورٹ اکثر کی ہی نہیں جاتیتصویر: DW/I. Jabbeen

پاکستان: زینب کا مبینہ قاتل گرفتار کر لیا گیا، پولیس

’زینب کا قاتل ممکنہ طور پر ایک سیریل کِلر ہے‘

کم سن بچی کا قتل، پاکستان سکتے میں

صورت حال میں بہتری کا آغاز گھر سے

انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن ثمر من اللہ نے اس سلسلے میں ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایسے جرائم کے مرتکب ملزموں کے خلاف قانونی کارروائی میں پولیس کا کردار بھی بہت اہم تو ہوتا ہی ہے لیکن یہ بات بھی نہیں بھلائی جانا چاہیے کہ بچوں کی حفاظت صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری گھر سے شروع ہوتی ہے۔ کسی بچے کے والدین اگر یہ سوچیں کہ وہ اپنے کم سن بچے کو اکیلا ہی کسی دکان، بازار، مدرسے یا اسکول بھیجیں گے تو کبھی کچھ نہیں ہو گا، تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔

ثمر من اللہ کے بقول کوئی جگہ اتنی محفوط نہیں ہوتی کہ والدین اپنے چھوٹے بچوں کو کسی بھی وقت اکیلے ہی کہیں بھی بھیج دیں۔ انہوں نے کہا، ''اگر آپ کا بچہ کسی عزیز، رشتہ دار، پڑوسی یا علاقے کے کسی دوکاندار کی وجہ سے خطرے میں ہے، تو اس خطرے کا تدارک ظاہر ہے گھر ہی سے شروع ہو گا۔ ایسے جرائم اور ان کی وجہ بننے والی ذہنیت کا خاتمہ تبھی ممکن ہے، جب ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ہمارے ارد گرد کے ماحول میں ایسے درندے بھی ہیں، جو بچوں کے لیے خطرناک ہیں اور زینب انصاری جیسے بچے بچیوں کے ریپ اور قتل کے مرتکب ہوتے ہیں۔‘‘

بچوں کے حقوق کے کارکنوں کا موقف

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف کارکن ارشد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی رائے میں ایسے جرائم کا سبب بننے والے عوامل سے نمٹنے کے لیے قانون اور پولیس سے بھی زیادہ اہمیت معاشرے کی اجتماعی ذمے داری کی ہے۔

ارشد محمود نے کہا، ''جنسی تشدد جیسے جرائم کے خاتمے کے لیے پہلے توجہ لازمی احتیاطی تدابیر پر دینا چاہیے۔ پولیس کا کردار اور مجرموں کو دی جانے والی سزائیں تو بعد کی باتیں ہیں۔ ہمیں اس کے لیے معاشرتی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کسی مظلوم سے اس کے ارد گرد کا معاشرہ بھی ہمدردی نہ کرے، تو بات ظلم در ظلم تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘

ارشد محمود نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان میں چائلڈ رائٹس موومنٹ کے پلیٹ فارم سے بچوں کی حفاظت کا ایک نظام قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب ہم ایک باقاعدہ سسٹم کی بات کرتے ہیں، تو اس میں پالیسی اور قانون سب سے اوپر ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ''پاکستان میں اس وقت قوانین تو بہت سے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ ناکافی بجٹ بھی ہوتا ہے۔ ہوتا اکثر یہ ہے کہ حکومت قانون سازی تو فوری طور پر کر دیتی ہے، لیکن قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے لازمی بجٹ سرے سے ہی نہیں یا بہت ہی کم مختص کرتی ہے۔‘‘