1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے حصص کی فروخت، فائدہ یا نقصان

عابد حسین
26 دسمبر 2016

پاکستان کے مرکزی اسٹاک مارکیٹ کے چالیس فیصد حصص ایک چینی کنسورشیم کو بیچنے کے تمام معاملات طے پا گئے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج نے حصص فروخت کرنے کی تصدیق کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/2Uszw
Symbolbild Indien Computer
تصویر: Getty Images/AFP/P. Paranjpe

اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے حصص کی فروخت کے معاہدہ کا حجم چوراسی ملین ڈالر  ہے۔ چینی کمپنیوں کا ایک کنسورشیم چالیس فیصد شیئرز خرید رہا ہے۔کنسورشیم فی شیئر اٹھائیس روپے میں خریدے گا۔

 پاکستانی اسٹاک ایکسچینج کی اس ڈیل کو مختلف بروکرز نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے مطابق حصص کم قیمت پر بیچے گئے ہیں اور فروخت کے وقت حکومتی منشاء پر بولی کم لگائی گئی تھی۔ اور اِس سے حصہ داروں کو نقصان ہوا ہے۔ بعض بروکر کے مطابق ایک شیئر کی قیمت ایک سو کے قریب ہو سکتی ہے۔

حصص خریدنے والے کنسورشیم میں تین کمپنیاں شامل ہیں۔ ان میں چین فنانشل فیوچور ایکسچینج کمپنی لمیٹڈ، شنگھائی اسٹاک ایکسچینج اور شین ژین اسٹاک ایکسچینج شامل ہیں۔ اس کنسورشیم میں دو پاکستانی کمپنیاں پاک چین انویسٹمینٹ کمپنی لمیٹڈ اور حبیب بینک بھی شامل ہیں۔

 پاکستان کے مشہور بزنس مین عقیل کریم ڈھیڈی نے بھی کم قیمت پر حصص کی فروخت کو نامناسب قرار دیا ہے۔ ڈھیڈی کے مطابق حکومتی اپنے سرکاری اثاثے جس طرح مرضی فروخت کرے لیکن اُس کو اسٹاک مارکیٹ کے بروکرز کے اثاثے بیچنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس وقت اسٹاک مارکیٹ کے بروکر کی تعداد تین سو ہے۔

Aqeel Karim Dhedi / Bussines man - MP3-Stereo

  ڈھیڈی کے مطابق حکومت نے جس اسٹک ایکسچینج کو پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا نام دیا ہے، وہ حقیقت میں کراچی اسٹاک ایکسچینج ہی ہے اور نام کی تبدیلی کے بعد اِس کے بروکر میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے اِن حصص کی فروخت کو ایک اہم مالی منفعت قرار دیا ہے۔ انہوں نے حصص کم قیمت پر بیچنے کے الزام کو بھی درست قرار نہیں دیا۔ ان کے مطابق چین کے بڑے مالی اداروں کی یہ سرمایہ کاری ایک بڑے اقتصادی منصوبے کا حصہ محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے اس پلان میں سی پیک کو بھی شامل کیا، جس کی وجہ سے پاکستان میں اقتصادی رابطہ کاری اور معاشی سرگرمیوں میں بہتری دکھائی دینا شروع ہو گئی ہے۔

اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت نے تین ملکی اسٹاک مارکیٹوں کا انضمام کر کے ایک بہتر فیصلہ کیا تھا۔ رواں برس کراچی اسٹاک مارکیٹ کے حصص کی سطح 33 ہزار کے قریب تھی جو گزشتہ جمعرات کو اڑتالیس ہزار سات سو کے قریب پہنچ چکی ہے۔ دوسری جانب کچھ دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ تینوں اسٹاک مارکیٹوں کو اکھٹا کرنے سے اگر کراچی اسٹاک مارکیٹ کے حصص کی سطح میں سولہ ہزار کا اضافہ ہوا ہے تو اِسے بھاری اور مثبت اقتصادی سرگرمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔