1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سوال پوچھنے کی روایت جامعات میں بھی نہیں تو کہاں؟‘

22 اپریل 2018

پنجاب يونيورسٹی کے ايسوسی ايٹ پروفيسر عمار علی جان جب ايک روز يونيورسٹی پڑھانے پہنچے تو ان کے دفتر کو تالا لگا ہوا تھا۔ جامعہ پنجاب کی انتظامیہ نے انہیں تدریسی فرائض سرانجام دینے سے روک دیا۔

https://p.dw.com/p/2wT5Q
Pakistan Protesten gegen die Abschiebung türkischer Lehrern
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

عمار علی جان سے خصوصی گفتگو

کیمبرج سے تعلیم یافتہ عمار علی جان بطور ايسوسی ايٹ پروفيسر پنجاب يونيورسٹی سے وابستہ تھے۔ يونيورسٹی انتظامیہ نے انہیں تدریسی فرائض سرانجام دینے سے روکے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ احکامات عمار کے ’’ریاست مخالف نظریات کو فروغ دینے کی اطلاعات‘‘ ملنے کے باعث جاری کیے گئے تھے۔ عمار ایسے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جامعہ کی انتظامیہ کو پسند نہیں کہ طلبہ سوال پوچھیں اور’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ سے ہمدردی کو بہانہ بناتے ہوئے عمار کو پڑھانے سے روکا گیا ہے۔

لاہور میں احتجاجی مظاہرہ آج ہر قیمت پر ہو گا، منظور پشتین

پاکستان کے رياستی ادارے اپنے ہی ملک کے دانشوروں اور اساتذہ سے محاذ آرائی پر کيوں آمادہ ہيں؟ عمار علی جان سے یہ پوچھا گیا تو ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’بہت عرصے سے يہ فضا بنی ہوئی ہے کہ کوئی بھی اگرتنقيدی سوچ رکھے، طالب علموں کے حقوق يا انسانی حقوق کے ليے آواز اٹھائے تو(کہا جاتا ہے کہ) اس سے رياست کو خطرہ ہے۔ جب کہ يونيورسٹيوں کا تو کام ہی طلبا میں تنقيدی سوچ اور سوچ کے عمل کو فروغ دينا ہے۔‘‘

عمار کا مزید کہنا تھا، ’’جب تک رياست اپنے شہريوں کو تحفظ کا احساس نہيں دے گی، ان کے بيچ اپنائيت کا رشتہ قائم نہيں ہو سکتا اور مجھے ڈر ہے کے يہ خليج بڑھتی ہی چلی جاے گی۔‘‘

ملک کی بڑی جامعہ میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد عمار سے اظہار يک جہتی کرتے ہوئے نہ صرف ان کے طلبا احتجاج کر رہے ہیں بلکہ صحافی اور پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ادارے بھی اس عمل کی مذمت کر رے ہيں۔

عمار کے مطابق، ’’جب ریاست سوالوں سے خوفزدہ ہو جائے اور اسے لگے کہ اس کے پاس جواب نہیں ہیں، تب وہ ہر سوال کرنے والے کو باغی سمجھنے لگتی ہے۔ اگر آپ صحيح سوال پوچھنے کی گنجائش پيدا نہيں کرتے تو یہ نشانی ہے ايک بہت ہی کمزور اسٹيبلشمنٹ کی، کمزور حکومت اور حکمرانوں کی۔‘‘

امريکا کے شہر نيويارک ميں مقيم پاکستانی صحافی حسن مجتبیٰ نے اس واقعے کے حوالے سے بات چيت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ايک وقت تھا کہ لفظ بنگال کالعدم قرار دے ديا گيا تھا، آج پھر ویسی ہی فضا ہے اور آج پشتون تحفظ موومنٹ اس عتاب کا شکار ہے اور عمار علی جان بھی اسی عتاب کا نشانہ بنے ہيں۔‘‘حسن مجتبیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ٹی ايم کو جس طرح عوامی حمايت مل رہی ہے اس سے جمہوريت اور آمريت کا تضاد کھل کے سامنے آ رہا ہے‘۔

گزشتہ برس تدریس کے شعبے ہی سے وابستہ پروفيسر سلمان حيدر بھی ’جبری گمشدگی‘ کا نشانہ بنے تھے۔ عمار علی جان کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے سے متعلق ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان حيدر کا کہنا تھا، ’’ملک ميں جو بھی واقعات ہوں چاہے وہ سماجی ہوں، معاشی يا سياسی، اگر ان پر يونيورسٹیيوں ميں بات نہيں ہو گی تو پھر کہاں ہو گی؟ ریاست کے خیال میں سماج ميں اٹھنے والی سياسی تحريکوں پر مباحثوں کے ليے اگر يونيورسٹی بھی ايک مناسب جگہ نہيں ہے تو پھر اسٹيبلشمنٹ يہ پيغام دينے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہی ہے اسے کرنے ديا جائے اور لوگ منہ پر تالے لگا کر بيٹھ جائيں۔‘‘

اس قسم کے واقعات کو سلمان ایک اور طرح کی انتہا پسندی قرار دیتے ہیں: ’’اگر ہماری اسٹيبلشمنٹ اور رياست انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہيں تو يہ طريقہ کار ٹھيک نہيں، يہ تو خود ايک طرح کی انتہا پسندی ہے، مذہبی نہ سہی رياستی سہی۔ انتہا پسندی کو ختم کرنے کے ليے ضروری ہے کہ مختلف آرا کے اظہار کو جگہ دی جائے اور لوگ اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت خود کو غير محفوظ محسوس نہ کريں۔‘‘

لاپتہ افراد کو ’غیرملکی ادارے‘ غائب کر رہے ہیں، جسٹس اقبال