1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کلائمٹ کانفرنس۔ ماحولیاتی جنگ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

4 نومبر 2021

گلاسگو میں جاری عالمی ماحولیاتی اجلاس میں نوجوان کلائمٹ ایکٹوسٹ در لبھ اشوک سی او پی 26 کے مختلف سیشنز میں پاکستان کی نمائندگی کرر ہے ہیں۔ آئیے درلبھ کی زبانی جانتے ہیں کہ عالمی ماحولیاتی جنگ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

https://p.dw.com/p/42ZxX
Enlgland | COP26 | internationaler Klimagipfel in Glasgow
تصویر: Sadeeqa Khan

گلاسگو کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے درلبھ اشوک 13سال کی عمر سے تحفظ ماحول کے لیے متحرک ہیں۔ درلبھ اشوک نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ غیر ذمہ دارانہ انسانی سرگرمیاں ہیں، جن میں بڑھتی ہوئی صنعتیں اور سبز مکانی یا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج سرفہرست ہیں۔ وہ اب تک ایسے 18 منصوبوں پر کام کر چکے ہیں، جن کا مقصد ماحول کے تحفظ کے لیے مقامی افراد کومختلف سہولیات فراہم کرنا تھا۔

Bild des Tages - Goldener Herbst
تصویر: Thomas Warnack/dpa/picture alliance

ماہرین کے مطابق جنگلات کی اندھا دھند کٹائی اور لکڑی وکوئلے کے بطور ایندھن استعمال سے دنیا کے درجۂ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوا۔ مگر تیل اور قدرتی گیس کے استعمال سے یہ درجۂ حرارت انتہائی تیزی سے بڑھا ہے۔ ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسوں جیسے میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کا اخراج ہوتا ہے، جو سورج کی شعاؤں کو جذب اور ٹریپ کر کے ماحول کے درجۂ حرارت کو بڑھاتی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں  فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں تقریبا 12 فیصد اضافہ ہوا۔  

گلاسگو کانفرنس اتنی اہمیت  کی حامل کیوں ہے؟

گلاسگو میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے سی او پی 26 کے صدر آلوک شرما نے کہا،''ہم سب جانتے ہیں کہ کرۂ ارض اس وقت ابتری کی طرف جا رہا ہے۔ ہم سب یہاں اس لیے اکھٹے ہوئے ہیں کہ مل کر ان مسائل کے مطلوبہ حل نکال سکیں۔ مسئلہ  اتنا سادہ نہیں رہا کیونکہ اس میں حکومتی پالیسیوں کا عمل دخل بھی زیادہ ہے۔ حکومتیں عموما اپنی پالیسیاں ماہرین ماحولیات کی فراہم کردہ گائڈ لائنز کے مطابق تشکیل نہیں دیتیں، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں۔ 

اس حوالے سے تحفظ ماحول کے لیے سرگرم پاکستانی کارکن درلبھ اشوک کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج امریکا، یورپی یونین، چین اور روس کر رہے ہیں جبکہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر اور غریب ممالک کا اس میں حصہ بہت کم  ہے،''مگر متاثر تو سب ہی ہو رہے ہیں اس لیے گلاسگو کانفرنس میں شریک ان ممالک کے نمائندے اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں، جن میں سر فہرست ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مالی امداد ہے۔‘‘ درلبھ کہتے ہیں کہ کرۂ ارض کو درپیش خطرات سب کے مشترکہ مسائل ہیں تو سب ہی کو ایک دوسرے کی مدد کر کے اپنی پھیلائی ہوئی آلودگی کو صاف کرنا ہو گا۔ 

Vor UN-Klimakonferenz COP26 in Glasgow
تصویر: picture alliance/dpa/AP POOL

ماحولیاتی جنگ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ 

درلبھ اشوک نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے۔ ان کے بقول عالمی سطح پر خارج ہونے والی سبز مکانی گیسوں کی کل مقدار میں پاکستان کا حصہ صرف 0.72 فیصد بنتا ہے،''مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔‘‘

حالیہ موسم گرما میں پاکستان کے کئی شہر دنیا کے گرم ترین شہروں کی فہرست میں صفِ اول پر تھے۔ بارشوں کے پیٹرن تبدیل ہونے سے سندھ اور بلوچستان شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں اور درجۂ حرارت بڑھنے سے ہمالیہ کے گلیشیئرز پہلے کی نسبت بہت تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو توانائی کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ درلبھ اشوک مزید کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کول پاور پلانٹس کی بندش کا اعلان کر چکے ہیں کیونکہ یہ  فضا میں کاربن کے بڑھتے اخراج  میں بنیادی کردار ادا کر ہے ہیں۔  

ماحولیاتی تبدیلیوں سے انسانی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ درلبھ اشوک کے بقول تاہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں عام افراد اس حوالے سے زیادہ شعور نہیں رکھتے کہ وہ از خود ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں،''جیسا کہ افریقہ، بنگلادیش، چین اور بھارت وغیرہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ عام افراد کی کوششیں اور چھوٹے پراجیکٹس کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔‘‘

درلبھ نے ڈیوئچے ویلے کو بتایا کہ سی او پی 26 میں وہ پلانٹ فار پلینٹ فاؤنڈیشن کے بورڈ ممبر کی حیثیت سے کلائمٹ چینج یوتھ لیڈر شپ سمیت دو مزید پینل ڈسکشن میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں،''ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جب جنگلات کو کاٹا یا جلایا جاتا ہے تو اس سے کاربن کا ذخیرہ ضائع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا سمیت کئی یورپی ممالک توانائی کے متبادل ذرائع میں ونڈ اور سولر انرجی کے بجائے بایو انرجی یا بایو ماس کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے ناصرف ہم اپنے کھوئے ہوئے جنگلات کو بحال کر سکتے ہیں بلکہ بایو ماس کے استعمال سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی تیزی سے کم ہوتا ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل متحرک ہو اور قومی سطح پر مکمل پلاننگ اور سٹرٹیجی کے ساتھ درخت اگاؤ مہمات شروع کی جائیں۔ درلبھ امید کرتے ہیں کہ وہ بہت کچھ نیا سیکھ کر نئے پراجیکٹس کے ساتھ پاکستان لوٹیں گے۔

سن2021  میں آئی پی سی سی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے شدید گرمی کی لہریں، طوفان،  تباہ کن بارشیں اور سیلاب اب معمول بن چکے ہیں۔ اگر آئندہ برسوں میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود نہیں کیا گیا تو مستقبل میں مزید ہولناک قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سن 2015 کے پیرس معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ جو ممالک سبز مکانی گیسوں کے زیادہ اخراج کا سبب بن رہے ہیں وہ تعاون کے ذریعے عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو 2  ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھیں گے۔ مگر ممالک کے اپنے اپنے مفادات اور عدم تعاون کے باعث یہ اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔   

 

دنیا کا پہلا ماحول دوست ایوان صدر