1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

لبنان میں جنگ کا خاتمہ ’اب ہماری پہنچ میں ہے،‘ امریکی ایلچی

19 نومبر 2024

آموس ہوخ اشٹائن کا کہنا ہے کہ انہوں نےاسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی ختم کرنے کا ’’ایک حقیقی موقع‘‘ دیکھا ہے۔ ادھر اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ ممکنہ جنگ بندی کے باوجود حزب اللہ کو نشانہ بناتے رہیں گے۔

https://p.dw.com/p/4nAZr
امریکہ کے خصوصی ایلچی آموس ہوخ اشٹائن
امریکہ کے خصوصی ایلچی آموس ہوخ اشٹائنتصویر: Hassan Ammar/AP/picture alliance

امریکہ کے خصوصی ایلچی آموس ہوخ اشٹائن  نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جنگ کا خاتمہ ''اب ہماری گرفت میں ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بات آج بروز منگل بیروت کے دورے کے دوران جنگ بندی پر بات چیت کے لیے ملکی حکام سے ملاقات کے بعد کہی۔

لبنانی حکومت نے اس مجوزہ منصوبے کی بڑی حد تک توثیق کی ہے۔ امریکہ اور فرانس لبنان میں اس جنگ کے خاتمے کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں، جو حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان تقریباً ایک سال سے جاری جان لیوا جھڑپوں کے تبادلے کے بعد ستمبر کے آخر میں زور پکڑ گئی تھی۔

امریکی ایلچی ہوخ  شٹائن کی لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی سے ملاقات
امریکی ایلچی ہوخ شٹائن کی لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی سے ملاقات تصویر: Lebanese Prime Minister's Press Office/AFP

اسرائیل نے اپنی کارروائیوں کو غزہ سے لبنان تک توسیع دے دی ہے۔ لبنانی حکام کے مطابق اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جاری لڑائی میں اب تک لبنان میں 3,510 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق  زیادہ تر اموات ستمبر کے آخر سے ریکارڈ کی گئی ہیں، جن میں 200 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔ منگل کو حزب اللہ کے اتحادی اور اس گروپ کی جانب سے ثالثی کی قیادت کرنے والے  پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری کے ساتھ ملاقات کے بعد، ہوخ اشٹائن  نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے لڑائی ختم کرنے کا ''ایک حقیقی موقع‘‘ دیکھا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''میں اس فیصلے کو آسان بنانے کے لیے بیروت میں ہوں، لیکن یہ بالآخر فریقین کا فیصلہ ہے ... یہ اب ہماری پہنچ میں ہے۔‘‘ آج ہی حزب اللہ کے رہنما نعیم قاسم کی ایک تقریر بھی متوقع تھی، لیکن اس گروپ نے امریکی ایلچی کے اعلان کے فوراً بعد ان کا خطاب ملتوی کر دیا۔

ایک لبنانی اہلکار نے پیر کے روز کہا کہ ان کی حکومت جنگ بندی کے منصوبے کے بارے میں ''بہت ہی مثبت نظریہ‘‘ رکھتی ہے، جب کہ ایک اور اہلکار نے کہا کہ لبنان ہوخ اشٹائن  کا انتظار کر رہا ہے ''تاکہ ہم ان کے ساتھ کچھ بقیہ نکات کا جائزہ لے سکیں۔‘‘

جنگ بندی کے باوجود حزب اللہ کے خلاف کارروائی جاری رہے گی، نیتن یاہو

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوکا پیر کے روز کہنا تھا کہ اسرائیل حزب اللہ کے خلاففوجی کارروائی جاری رکھے گا، چاہے جنگ بندی ہو بھی جائے۔ انہوں نے ملکی پارلیمنٹ کو بتایا، ''ہم جنگ بندی کے بعد بھی (اسرائیل کے) شمال میں اپنی سلامتی کو یقینی بنانے اور حزب اللہ کے حملوں کے خلاف منظم طریقے سے آپریشن کرنے پر مجبور ہوں گے تاکہ یہ گروہ دوبارہ منظم نہ ہو سکے۔‘‘ نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ حزب اللہ ملیشیا جنگ بندی کا احترام کرے گی۔

اسرائیل ستمبر سے روزانہ کی بنیاد پر لبنان پر حملے کرتا آیا ہے
اسرائیل ستمبر سے روزانہ کی بنیاد پر لبنان پر حملے کرتا آیا ہےتصویر: Houssam Shbaro/Anadolu/picture alliance

اسرائیل نے لبنان میں زمینی فوج بھی بھیج رکھی ہے، جب کہ حزب اللہ تقریباً روزانہ اسرائیل پر میزائل داغنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔  اسرائیلی فوج نے کہا کہ منگل کے روز وسطی اور شمالی اسرائیل پر تقریباً 40 پروجیکٹائل فائر کیے گئے، جن سے چار افراد زخمی ہوئے۔

حزب اللہ نے منگل کے روز کہا کہ اس نے تل ابیب کے مضافات میں گلیلوٹ ملٹری انٹیلیجنس بیس پر ''میزائلوں کا ایک بیراج‘‘ لانچ کیا ہے۔ ایرانی حمایت یافتہ گروپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نے جنوبی لبنان میں چار مقامات پر اسرائیلی فوجیوں پر حملے کیے ہیں۔

حماس کے مذاکرات کار دوحہ میں نہیں، قطر

حماس کے مذاکرات کار دوحہ میں نہیں ہیں لیکن حماس کا دفتر مستقل طور پر بند نہیں کیا گیا ہے، قطر نے منگل کو کہا کہ اس قیاس آرائی کے بعد کہ فلسطینی گروپ کو قطری دارالحکومت سے باہر جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا،''حماس کے رہنما جو مذاکراتی ٹیم میں شامل ہیں، اب دوحہ میں نہیں ہیں،‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''دفتر کو مستقل طور پر بند کرنے کا فیصلہ، ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے بارے میں آپ سنیں گے۔ براہ راست ہم سے۔‘‘ قطر نے امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ جنگ میں جنگ بندی کے لیے کئی مہینوں تک بے نتیجہ مذاکرات کی قیادت کی تھی لیکن خلیجی ریاست نے اس ماہ کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی ثالثی کی کوششوں کو روک رہی ہے۔

ھماس نے امریکہ کی آشیر باد سے اور اس کے خلیجی اتحادی قطر کے  تعاون سے دو ہزار بارہ میں دوحہ میں اپنا فتر قائم کیا تھا
ھماس نے امریکہ کی آشیر باد سے اور اس کے خلیجی اتحادی قطر کے تعاون سے دو ہزار بارہ میں دوحہ میں اپنا فتر قائم کیا تھاتصویر: Reuters/Thaer Ghanaim/Palestinian President Office

یہ اعلان ان رپورٹوں کے بعد کیا گیا جب قطر نے حماس کو خبردار کیا تھا کہ اس کا سیاسی بیورو، جس کی خلیجی ریاست نے 2012 سے امریکہ کی آشیرباد سے میزبانی کی ہے، اب مزید خوش آئند نہیں ہے۔

 انصاری نے منگل کو کہا، ''ثالثی کا عمل ابھی... معطل ہے جب تک کہ ہم دونوں فریقوں کے موقف پر مبنی فیصلے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں لیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ دوحہ میں حماس کا دفتر ثالثی کے عمل کے لیے بنایا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب ثالثی کا کوئی عمل نہیں ہوتا تو دفتر کا خود کوئی کام نہیں ہوتا۔

حماس کے ایک سینیئر رہنما نے پیر کے روز اے ایف پی کو بتایا کہ ''ہمیں کسی نے جانے کے لیے نہیں کہا ‘‘اور ان رپورٹوں کی تردید کی کہ اراکین ترکی منتقل ہو گئے ہیں اور کہا کہ ''حماس کے سیاسی شعبے میں مختلف سطحوں کے رہنما وقتاً فوقتاً ترکی کے مربوط دورے کرتے رہتے ہیں۔‘‘

ش ر ⁄  ک م، م م (اے ایف پی، اے پی)