واضح رہے کہ کل بروز منگل سولہ ستمبر کو پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان کی طرف سے ایوان زیریں قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا تھا، جس کے تحت اگر کوئی شخص آرمی کا تمسخر اڑائے، بے عزتی کرے یا بدنام کرے تو اس کو دوسال قید کی سزا بھگتنی پڑے گی اور پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔ اس مسودہٴ قانون میں تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات میں ترامیم بھی تجویز کی گئی ہیں۔
فوج پر تنقید
پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہی ہے۔ تاہم حالیہ ہفتوں میں فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کے کاروبار بھی ہدف تنقید رہے، جس کا سب سے زیادہ شکار سابق لیفٹیننٹ جنرل اور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین عاصم سلیم باجوہ ہوئے، جن پر سول سوسائٹی اور سیاست دانوں کی طرف سے صحافی احمد نورانی کے انکشافات کے بعد شدید تنقید ہوئی۔
تشویش کی لہر
نئے مسودہٴ قانون کے آنے سے ملک کے کئی حلقے تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں، جو اسے آزادی اظہاررائے کو دبانے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئےکہنا ہے کہ ملکی میڈیا پہلے ہی فوج پر تنقید نہیں کرتا اور وہاں سلیف سینسرشپ ہے،''تاہم سوشل میڈیا پر کچھ لوگ فوج کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور اب وہاں بھی سینسر شپ ہوجائے گی، فیس بک پہلے ہی قابل اعتراض مواد کو ہٹا چکی ہے اور اگر یہ قانون پاس ہوجاتا ہے تو سوشل میڈیا پر مزید سختیاں ہوں گی۔ میرے خیال میں اس قانون کا کوئی جواز نہیں اور یہ آزادی اظہار رائے کو دبانا کا ایک حربہ ہے۔‘‘
سیاسی جماعتوں کی مخالفت
سیاسی جماعتیں بھی اس قانون کی مخالف نظر آرہی ہیں۔ یہاں تک کہ ن لیگ، جس پر ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے پس پردہ ڈیل کرتی ہے، نے بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ اس بل کی مخالفت کرے گی۔ پارٹی کی ایک رہنما عظمیٰ بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک صاحب فوج سے ریٹائرڈ ہوئے اور انہوں نے ایک سیاسی عہدہ قبول کیا تو اگر یہ عہدہ قبول کرنا ہے تو پھر آپ کا احتساب بھی ہوگا اور آپ سے سوالات بھی پوچھے جائیں گے، آپ اس طرح قوانین بنا کر ان سوالات سے بھاگ نہیں سکتے، جب تین بار منتخب ہونے والا وزیر اعظم احتساب کا سامنا کر سکتا ہے، تو ایسے لوگ کیوں احتساب کا سامنا نہیں کر سکتے۔‘‘
عظمیٰ بخاری کا مزید کہنا تھا کہ یہ قوانین جمہوری روایات کے خلاف ہے،''اور ہم ہر صورت اس کی مخالفت کریں گے۔ مریم صاحبہ، احسن اقبال، خواجہ آصف اور دیگر رہنماؤں نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ جن کو جواب دینا چاہیے وہ جواب دیں۔ تو لہذا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم اس بل کی حمایت کریں۔‘‘
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1988 – تیسرا جمہوری دور
ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریتی نشستیں حاصل کر لیں۔ بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ اس وقت پیپلز پارٹی کو 38 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ ان کے مدمقابل نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد نے تیس فیصد ووٹ حاصل کیے۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
-
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔
مصنف: شمشیر حیدر (اشوک کمار)
بل کی حمایت
تاہم پی ٹی آئی اور ملک کے کئی حلقے اس بل کی حمایت پر تیار نظر آتے ہیں اور وہ پر اعتماد ہیں کہ بل پاس ہوگا۔ پارٹی کے ایم این اے محمد اقبال خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بل کی بہت ضرورت ہے کیونکہ پی ٹی ایم اور دوسرے کئی عناصر پاک فوج کے خلاف دشنام طرازی کر رہے ہیں اور انہیں بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، اگر ہم انہیں نہیں روکیں گے تو ملک کی حفاظت کون کرے گا، ایک دو لوگوں کو سزائیں ملیں گی، تو باقی لوگ خود ہی سبق سیکھ جائیں گے۔‘‘
محمد اقبال خان کا کہنا تھا کہ پارٹی مطمئن ہے کہ بل پاس ہوجائے گا، ''عددی اکثریت کا مسئلہ نہیں ہے۔ ایف اے ٹی ایف پر بھی تو قوانین بن رہے ہیں اور بل پاس ہو رہے ہیں۔ تو یہ بل بھی پاس ہو گا۔‘‘
بل کاکوئی فائدہ نہیں
کچھ ناقدین کے خیال میں نئے بل لانے کے بجائے حکومت پہلے سے موجودقوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائے۔ سابقہ اعلیٰ فوجی افسر اور تجزیہ نگار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی کڑا بھی گیا تو سزائیں دینا مشکل ہو گا،''اگر آپ کسی کو پکڑتے بھی ہیں تو عدالت سے وہ چھوٹ جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ دنوں میں فوج کو بہت بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے خلاف سخت اقدامات ہونے چاہییں لیکن نئے قوانین بنانے کے بجائے، پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کیا جائے تاکہ فوج کے وقار پر آنچ نہ آئے۔‘‘
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ایسا قانون بہت سے اداروں کے تعاون کا محتاج ہوتا ہے،'' آپ کے ساتھ گوگل اور انٹرنیٹ کمپنیاں تعاون نہیں کریں گی۔ اس قانون کے بننے کے بعد مزید پروپیگنڈہ کیا جائے گا اور سوشل میڈیا پر ایسے پروپیگنڈے کو روکنا بہت مشکل ہے۔‘‘