1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

عرب لیگ کا فلسطینی علاقوں میں امن فوج کی تعینانی کا مطالبہ

17 مئی 2024

عرب لیگ نے اپنے سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ایک بین الاقوامی امن کانفرنس بلانے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4g00v
22 رکنی عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دو ریاستی حل کے نفاذ تک ''مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کو تعینات‘‘ کیا جائے
22 رکنی عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دو ریاستی حل کے نفاذ تک ''مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کو تعینات‘‘ کیا جائےتصویر: Qatar Amiri Diwan/Handout/Anadolu/picture alliance

بحرین کے دارالحکومت منامہ میں ہونے والے 22 رکنی عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دو ریاستی حل کے نفاذ تک ''مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کو تعینات‘‘ کیا جائے۔

اس سربراہی اجلاس میں میزبان بحرین کے شاہ حمد اور فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے پیش کردہ اس تجویز کو بھی باقاعدہ منظور کر لیا گیا، جس میں اقوام متحدہ سے ایک بین الاقوامی کانفرنس بلانے اور مسئلہ فلسطین کو دو ریاستوں کی بنیاد پر حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

عرب سربراہان مملکت و حکومت کا یہ اجلاس سات ماہ سے زائد عرصے سے جاری غزہ کے انتہائی خونریز تنازعے کے تناظر میں طلب کیا گیا تھا، جس نے پورے مشرق وسطیٰ  کو متاثر کیا ہے۔

عرب لیگ کے ایک دوسرے بیان میں حماس اور اسرائیل کے مابین فوری جنگ بندی اور فلسطینی علاقوں سے عام شہریوں کی جبری نقل مکانی کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے اس سمٹ میں کہا کہ ان کی حریف حماس نے سات اکتوبر کو حملہ کرتے ہوئے اسرائیل کو غزہ کی جنگ شروع کرنے کے لیے ''بہانے اور جواز‘‘ فراہم کر دیے تھے۔

حماس نے صدر محمود عباس کے اس ''تبصرے پر افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سات اکتوبر کا حملہ ''ہماری فلسطینی کاز کو ترجیحات میں سب سے اوپر لے آیا ہے اور اس کے اسٹریٹیجک فوائد حاصل ہوئے ہیں۔‘‘

22 رکنی عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دو ریاستی حل کے نفاذ تک ''مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کو تعینات‘‘ کیا جائے
22 رکنی عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دو ریاستی حل کے نفاذ تک ''مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کو تعینات‘‘ کیا جائےتصویر: Bahrain News Agency/Handout via REUTERS

حماس نے عرب لیگ کے حتمی اعلامیے کا بھی خیر مقدم کیا اور ''برادر عرب ریاستوں پر زور دیا کہ وہ (اسرائیلی) جارحیت اور قبضے‘‘ کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے اس عرب سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے غزہ کی جنگ کو ''ایک کھلا زخم‘‘ قرار دیا، جس سے پورے خطے کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

گوٹیرش نے مزید کہا، ''تشدد اور عدم استحکام کے دائرے کو ختم کرنے کا واحد مستقل راستہ دو ریاستی حل ہے۔‘‘

دریں اثنا اقوام متحدہ کے ترجمان نے امن دستوں کی تعیناتی کے مطالبات کے جواب میں کہا ہے کہ کسی بھی مشن کی تشکیل کا انحصار ''سلامتی کونسل کی طرف سے مینڈیٹ اور فریقین کی طرف سے ان دستوں کے لیے قبولیت‘‘ پر ہو گا۔

عرب ممالک کی طرف سے جاری کردہ ''منامہ اعلامیے‘‘ میں بھی تمام فلسطینی دھڑوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی چھتری کے نیچے جمع ہوں، جس پر صدر عباس کی حکمران الفتح تحریک کا غلبہ ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ عرب لیگ پی ایل او کو ''فلسطینی عوام کا واحد جائز نمائندہ‘‘سمجھتی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں خلیجی بادشاہت سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والے غیر معمولی سربراہی اجلاس کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی معاملے پر یہ عرب بلاک اتنا یکجا ہوا ہے۔

کویتی تجزیہ کار ظفر العجمی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ منامہ میں ہونے والی ملاقات حالیہ سربراہی اجلاسوں سے مختلف تھی کیوں کہ نومبر میں عرب رہنماؤں نے اسرائیل کے خلاف تعزیری اقدامات کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔

عجمی نے مزید کہا کہ اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک پہلی مرتبہ مغربی رائے عامہ ''فلسطینیوں کی حمایت میں اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں‘‘ کے خلاف ہے۔

عجمی نے کہا کہ اسرائیل حماس کو تباہ کرنے سمیت اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب لڑائی میں الجھا ہوا ہے۔

یمن کے حوثی باغیوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیےبحیرہ احمر میں حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ تاہم بحرین میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں تجارتی بحری جہازوں پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا، ''یہ حملے آزادانہ جہاز رانی، بین الاقوامی تجارت، دنیا کے ممالک اور لوگوں کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘

اس اعلامیے میں ''بحیرہ احمر میں آزادانہ جہاز رانی کو یقینی بنانے‘‘ کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔

ا ا / ع ت، م م  (اے ایف پی، روئٹرز)