1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

افغان ریل نیٹ ورک سے جڑے طالبان کے بلند خواب

31 مئی 2024

طالبان کو امید ہے کہ ملک میں ریلوے نیٹ ورک کے قیام اور بحالی کے منصوبوں سے ملکی معیشت کو فروغ حاصل ہو گا۔ انہی منصوبوں میں پاکستان کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاست ازبکستان سے ملانے والا نیٹ ورک بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/4gVPg
Afghanistan l Züge, Gleise
تصویر: Railway Department of Afghanistan

ازبکستان کے ساتھ افغان سرحد کے آخری حصے پر، جہاں ریلوے لائن ختم ہو جاتی ہے، نوجوانوں کا ہجوم مال بردار ٹرینوں سے گندم یا آٹے کی بوریوں کو ٹرکوں میں منتقل کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔

شمالی افغانستان کے سرحدی قصبے حیراتان میں روزانہ قریب 3500 ٹن آٹا اور 1500 ٹن گندم یہ نوجوان ان ٹرکوں پر منتقل کرتے ہیں، جو دشوار گزار پہاڑی گزرگاہوں اور جنگ سے تباہ شدہ سڑکوں سے گزر کر اسے ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچاتے ہیں۔

پاکستان سے ازبکستان تک ریلوے لائن کا منصوبہ کتنا قابل عمل؟

پاکستان کی افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ بارٹر نظام کے تحت تجارت

افغانستان کے شمالی حصے کے سب سے بڑے شہر مزار شریف کو اس ریلوے لائن سے ملانے کے منصوبے پر کام جاری ہے اور طالبان حکام کے مطابق یہ منصوبہ جون تک قابل استعمال ہو جائے گا۔

صرف 75 کلومیٹر طویل اس ریلوے لائن کی بحالی، طالبان حکومت کے متعدد غیر فعال ریلوے منصوبوں کو بحال کرنے کے عزائم کا ایک اہم حصہ ہے۔

طویل عرصے سے زیر غور 'ٹرانس افغان ریلوے‘ کا مقصد بالآخر ازبکستان، افغانستان اورپاکستان کو ایک 700 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک سے جوڑنا ہے۔ یہ تینوں ممالک نہ صرف اس کے حق میں ہیں بلکہ اس کے لیے ایک ورکنگ گروپ قائم ہے۔

افغانستان میں ایک ریلوے انجن
افغانستان کے شمالی حصے کے سب سے بڑے شہر مزار شریف کو اس ریلوے لائن سے ملانے کے منصوبے پر کام جاری ہے اور طالبان حکام کے مطابق یہ منصوبہ جون تک قابل استعمال ہو جائے گا۔تصویر: Railway Department of Afghanistan

برطانیہ میں قائم ریلوے گزٹ انٹرنیشنل کے نیوز ایڈیٹر اینڈریو گرانتھم کے مطابق، ''لوگ 100 سال سے زیادہ عرصے سے ٹرانس افغان ریلوے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘‘

روس سے کھانے پینے کی اشیاء اور لکڑی کے علاوہ، ایندھن اور دیگر سامان وسطی ایشیائی جمہوریہ اور چین سے حیراتان پہنچتے ہیں۔ طالبان حکومت اس سامان کو اپنے دور حکومت میں ہی ریل کے ذریعے افغانستان سے گزرتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔

مزار شریف میں بلخ ریلوے اتھارٹی کے سربراہ محمد شفیق محمود کے مطابق، ''ٹرانس افغان وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان اقتصادی راہداری بن جائے گا۔ ‘‘

یہ ان دو ریلوے منصوبوں میں سے ایک ہے جن پر طالبان حکام عمل پیرا ہیں تاکہ افغانستان کو جو دہائیوں کی جنگ اور غربت کا شکار ملک ہے اور جس نے کبھی بھی اپنی ریلوے تعمیر نہیں کی، بہتر طریقے سے ہمسایہ ممالک سے منسلک کیا جا سکے۔

ملک کے دوسرے سرے پر 200 کلومیٹر سے زیادہ طویل ایک اور ریلوے لائن کا مقصد ہرات شہر کو اس کے مغربی ہمسایہ ملک ایران سے جوڑنا ہے، جس سے افغانستان کو سمندر ، ترکی اور یورپ تک رسائی حاصل ہوگی۔

یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا منصوبہ 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی سے تقریبا 15 سال پہلے بنایا گیا تھا۔

ریلوے ٹرانسپورٹ سامان کی نقل و حمل کا تیز ترین اور سستا ترین ذریعہ ہے۔ خیال رہے افغانستان میں اس مرحلے پر فی الحال مسافر ٹرینیں زیر غور نہیں ہیں۔

کابل میں قومی ریلوے کے ترجمان عبدالسمیع درانی نے کہا کہ پاکستان تک ریلوے لائن کی تعمیر میں وقت لگے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ہمارے موجودہ اندازوں کے مطابق، ایک بار جب اس منصوبے پر اصل کام شروع ہو جائے گا، تو تعمیراتی مرحلے میں تین سے پانچ سال لگیں گے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق  اس پر چار سے پانچ ارب ڈالر کی لاگت آئے گی اور یہ کہ اس سلسلے میں طالبان حکومت مختلف ممالک اور مالیاتی اداروں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔

افغانستان میں مال بردار ٹرینیں
ریلوے ٹرانسپورٹ سامان کی نقل و حمل کا تیز ترین اور سستا ترین ذریعہ ہے۔ خیال رہے افغانستان میں اس مرحلے پر فی الحال مسافر ٹرینیں زیر غور نہیں ہیں۔تصویر: Railway Department of Afghanistan

طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے افغانستان کو ملنے والے غیر ملکی فنڈز کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے کیونکہ ان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

ریلوے گزٹ انٹرنیشنل کے نیوز ایڈیٹر اینڈریو گرانتھم کے مطابق، ''پانچ سالوں میں اس پیمانے پر ریلوے کی تعمیر، یہ ممکن نہیں ہو گا۔‘‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ کابل کو غیر ملکی مالی اور تکنیکی امداد کی ضرورت ہوگی اور یہ کہ مغربی کمپنیاں ممکنہ طور پر ''سکیورٹی اور حفاظت کے مسائل اور سیاسی ماحول‘‘ کی وجہ سے اس میں دلچسپی نہیں لیں گی۔

لیکن وسطی ایشیائی ممالک جیسے ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ ساتھ روس پہلے ہی افغانستان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ایران جیسے دیگر ممالک بھی افغانستان کو مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

گرانتھم کے بقول، ''ایسا لگتا ہے کہ یہ منصوبے مکمل ہو جائیں گے‘‘ اور یہ کہ ہرات کو ایران سے جوڑنے والی لائن ''مناسب طور پر تیزی سے تکمیل کو پہنچ سکتی ہے۔‘‘

گرانتھم کے مطابق، ''اگر یہ مان لیا جائے کہ ایران معاون ہے، تو یہ ایک قابل عمل منصوبہ ہونا چاہیے۔‘‘

گزشتہ اتوار کو اس لائن کے آخری مرحلے پر کام شروع ہوا۔

افغانستان کی قومی ریلوے کے ترجمان عبدالسمع درانی کے مطابق47 کلومیٹر طویل سیکشن دو سال میں مکمل ہو گا اور اس پر 53 ملین ڈالر لاگت آئے گی، جس میں روسی اور ترک شراکت دار شامل ہیں۔

افغانستان میں ایک ریلوے ٹریک
فنڈنگ کے علاوہ، افغانستان کی طالبان حکومت کو حل کرنے کے لیے مشکل تکنیکی مسائل کا بھی سامنا ہے، خاص طور پر ریلوے ٹریک گیج کا معاملہ۔تصویر: Railway Department of Afghanistan

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ریلوے افغانستان کو سمندر تک رسائی فراہم کرے گی اور اسے بین الاقوامی تجارتی راستوں سے منسلک کرے گی اور ''افغانستان کی معیشت کو نمایاں طور پر متاثر کرے گی۔‘‘

درانی کے بقول، ''ملک میں جتنی زیادہ کلومیٹر ریلوے لائن بچھائی جائے گی، دوسرے ممالک کے ساتھ ہماری تجارت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ‘‘

فنڈنگ کے علاوہ، افغانستان کی طالبان حکومت کو حل کرنے کے لیے مشکل تکنیکی مسائل کا بھی سامنا ہے، خاص طور پر ریلوے ٹریک گیج کا معاملہ۔

ایران یورپی گیج استعمال کرتا ہے، لیکن سابق سوویت جمہوریہ سے آنے والی ریلوے کا گیج مختلف ہے، اور پاکستان کے پاس تیسرا گیج ہے۔

اب ا⁄ ش ر (اے ایف پی)