شو بز اسٹار، سیاست میں اِن، لیکن اسمبلیوں سے آؤٹ کیوں؟
26 جون 2018بھارت اور پاکستان میں فلم اور کھیل کی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد کا سیاست میں آنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھارت میں تو کئی ایک مقبول فلمی اداکار اور اداکارائیں رکنِ پارلیمان بھی رہ چکی ہیں لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں ٹی وی کی سابقہ ادکارہ کنول نعمان کےسوا کوئی بھی فنکار اسمبلی تک نہیں پہنچ پایا۔ خود کنول بھی انتخابی معرکہ جیت کر عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن پنجاب اسمبلی بنی تھیں۔
بے پناہ شہرت اور عزت ہونے کے باوصف، آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو سیاسی دھارے کا حصہ بننےکی خواہش رکھنے والے شوبز اور کھلاڑی ستاروں کو صوبائی و قومی اسمبلیوں میں پہنچنے نہیں دیتیں؟
معروف بلاگر اور تجزیہ کار فرنود عالم نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ سیاست میں آنے والے اداکاروں اور کھلاڑیوں کو پانچ مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ اُن کا کوئی انتخابی حلقہ نہیں ہوتا۔ دوئم وہ جس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں وہ طبقہ انتخابی عمل اور سیاست کو لایعنی مشق سمجھتا ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ لوگ عوامی سیاست کی ابجد سے ناواقف ہوتے ہیں۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اِن کے کریڈٹ پر کوئی ایسا کردار نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر وہ عوام سے ووٹ کا تقاضا کر سکیں۔
ماہر تجزیہ کار، شاعر و ادیب عقیل عباس جعفری نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کھلاڑی اور فنکار غالباﹰ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام انہیں اُن کی مقبولیت کے باعث ووٹ دے دیں گے حالانکہ پاکستان میں عام رحجان یہی ہے کہ لوگ اپنی وابستگی والی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔‘‘
البتہ کھیل اور شو بز کی دنیا سے سیاست میں قدم رکھنے والے دو افراد ایسے ضرور ہیں جنہوں نے اس میدان میں اپنے قدم جمائے ہیں۔ ان میں ایک مثال عمران خان اور دوسری ابرار الحق کی ہے۔ عمران خان شاید واحد مثال ہیں جو اپنے فین کلب کو سیاست میں لے کر داخل ہوئے اور انہیں نسبتاﹰ کامیابی ملی۔ گوکہ ان کے ساتھ بھی جو فین کلب آیا وہ کلب کا ایک حصہ ہی تھا مگر وہ کافی بڑا حصہ تھا۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے فرنود عالم کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کامیابی یہ رہی کہ انہوں نے کرکٹ کے فین کلب سے ہٹ کر سیاسی میدان میں اپنے کارکنوں اور ووٹروں کا حلقہ پیدا کیا۔ اور اس کامیابی کی وجہ ان کی فلاحی خدمات اور کل وقتی سیاست ہے۔ عمران خان شوکت خانم ہسپتال کے لیے وسائل اکٹھا کرنے کے سلسلے میں کسی عوامی سیاست دان کی طرح براہ راست لوگوں میں گئے۔ بعد ازاں جب انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو مسلسل عوام میں رہے۔ اپنے رفاہی کام اور کرپشن کے خلاف مقبول نعرے نے نئی پود کو اُن کی جانب متوجہ کیا۔
ابرارالحق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرنود عالم نے کہا،’’ بلاشبہ وہ اپنا حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ اس کی وجہ ابرار کا اپنے حلقے میں فلاحی رفاہی سرگرمیاں انجام دینا اور پھر اسی بنیاد پر مسلسل حلقے کے عوام میں رہنا ہے۔‘‘
عقیل عباس جعفری نے تاہم نامور کرکٹر سرفراز نواز اور ٹی وی کمپیئر طارق عزیز کی مثال دی جنہوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور جیتے بھی۔ سرفراز نواز کی انتخابی مہم اُن کی بیوی اور مقبول فلمی ہیروئین رانی نے خود چلائی تھی اور وہ سن 1985 میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ طارق عزیز نے سن 1997 میں الیکشن لڑا اور کامیاب بھی ہوئے تاہم انہیں سپریم کورٹ پر حملے کے تنازعے کے سبب نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
عقیل عباس نے سن 1985 میں ہونے والے اداکار کمال کے الیکشن کو سب سے مشہور الیکشن قرار دیا جو انہوں نے جماعت اسلامی کے خلاف قومی اسمبلی کی ایک نشست پر لڑا تھا۔ جعفری کے مطابق تاہم کمال بھی یہ نشست حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ ‘‘
اسی طرح صحافیوں کی بھی سیاسی وابستگیاں ہوتی ہیں اور انہیں نوازا بھی جاتا ہے لیکن وہ بھی انتخابی عمل سے گزر کر اسمبلیوں کا حصہ نہیں بنتے۔ یہ خواتین و حضرات اپنے اثر و رسوخ اور فہم کی بنیاد پر اپنی پسند کی جماعت کو دو قسم کی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ ایک اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے پیغام کے ابلاغ میں مدد مہیا کرتے ہیں، دوسرا اس جماعت کی قیادت کو مشکل وقت میں بطور رضاکارانہ مشیر کام آتے ہیں۔
یہی وجہ ہوتی ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو وہ کچھ منصبوں کے لیے بطور مشیر اور کچھ اداروں کے لیے بطور سربراہ کچھ ایسے صحافیوں کو تعینات کردیتے ہیں جو ان کے کام آئے ہوئے ہوتے ہیں۔
فرنود عالم کے مطابق ،’’شوبز کے سیلیبریٹیز کی طرح صحافیوں کا بھی کوئی حلقہ نہیں ہوتا۔ مگر شوبز سیلیبریٹیز کی نسبت ان کی سیاسی اُمور پر گرفت زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ اس کی چار وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ صحافت کی تعلیم میں سیاست ایک اہم جز ہے۔ دوسرا یہ کہ صحافی عملی زندگی میں سیاست سے زیادہ متعلق ہوتے ہیں۔ تیسرے، یہ بااثر قوتوں تک اپنی پہنچ رکھتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ یہ ایک سیاست دان کی طرح مسلسل لوگوں کے بیچ رہتے ہیں۔‘‘
سن 2018 کے انتخابات میں بھی شو بز کے کئی ستارے اسمبلیوں میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسکرین پر دیکھ کر اُن پر جان چھڑکنے والے مداحین اُنہیں اس بار اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں یا نہیں۔