1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ: توہین مذہب کا ملزم ڈاکٹر مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک

20 ستمبر 2024

یہ ایک ہفتے میں توہین مذہب کے الزام میں پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کا دوسرا واقعہ تھا۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے پولیس کے ہاتھوں اس نوعیت کی ہلاکتوں کے ’خطرناک رجحان‘ کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ktKU
یہ ایک ہفتے کے دوران پولیس کے ہاتھوں مبینہ طور پر توہین مذہب کے کسی ملزم کی ماورائے عدالت ہلاکت  کا دوسرا واقعہ ہے
یہ ایک ہفتے کے دوران پولیس کے ہاتھوں مبینہ طور پر توہین مذہب کے کسی ملزم کی ماورائے عدالت ہلاکت کا دوسرا واقعہ ہےتصویر: AFP/P. Pardo

پاکستان کے صوبہ سندھ میں پولیس نے توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے ایک ڈاکٹر کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا ہے۔ یہ ایک ہفتے کے دوران اس نوعیت کے ماورائے عدالت کا دوسرا واقعہ ہے، جس کی انسانی حقوق کے  گرپوں نے شدید مذمت کی ہے۔ پولیس نے مقتول کی شناخت ڈاکٹر شاہ نواز کے نام سے کی ہے، جو دو روز قبل مبینہ طور پر پیغمبراسلام کی توہین اور سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شیئر کرنے کے الزام کے بعد روپوش ہو گئے تھے۔

مقامی پولیس کے سربراہ نیاز کھوسو نے کہا کہ بدھ کی رات پولیس افسران نے صوبہ سندھ کے شہر میرپور خاص میں موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کو رکنے کا اشارہ کیا، تو انہوں نے رکنے کے بجائے، پولیس پر فائرنگ کی اور فرار ہونے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے ملزم شاہ نواز کو ''موقع پر ہلاک‘‘کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان میں سے ایک موٹر سائیکل پر فرار ہو گیا۔

اکثر مشتعل ہجوم توہین مذہب کے ملزمان کو سزا دینے کے لیے قانون کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں
اکثر مشتعل ہجوم توہین مذہب کے ملزمان کو سزا دینے کے لیے قانون کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیںتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

کھوسو نے دعویٰ کیا کہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہی افسران کو معلوم ہوا کہ مقتول وہ ڈاکٹر تھے، جنہیں مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں ڈھونڈا جا رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مقامی علماء کو پولیس پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرتے اور توہین رسالت کے ملزم کو ہلاک کرنے پر افسران کی تعریف کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ملزم کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی اس بارے میں سندھ حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی مذمت

غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی طرف سے شاہ نواز کے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے الزام میں دو افراد کے مبینہ ماورائے عدالت قتل پر سخت تشویش ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا، ''توہین مذہب کے معاملات میں تشدد کا یہ انداز، جس میں مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اہلکار ملوث ہیں، ایک تشویشناک رجحان ہے۔‘‘ ایچ آر سی پی نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ یہ معلوم کرنے کے لیے ایک آزادانہ انکوائری کرے کہ شاہ نواز کی موت کا ذمہ دار کون ہے اور اس کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔

میرپور خاص میں نواز کا قتل، قریبی شہر عمر کوٹ میں اسلام پسندوں کی جانب سے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے والے احتجاج کے ایک دن بعد کیا گیا۔ بتایا گیا ہےکہ بدھ کو ایک مشتعل ہجوم نے شاہ نواز کے کلینک کو جلا دیا تھا۔
تازہ ترین ہلاکت کا یہ واقعہ کوئٹہ میں ایک پولیس اسٹیشن کے اندر ایک پولیس افسر کی جانب سے مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ایک اور مشتبہ شخص عبدالعلی کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے واقعے کے  کے ایک ہفتے بعد ہوئی ہے۔

انسانی ‍حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے افراد پاکستان میں توہین مذہب کے متنازعہ قوانین کے حوالے سے آوازیں اٹھاتے آئے ہیں
انسانی ‍حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے افراد پاکستان میں توہین مذہب کے متنازعہ قوانین کے حوالے سے آوازیں اٹھاتے آئے ہیںتصویر: RIZWAN TABASSUM/AFP/Getty Images

52 سالہ عبدالعلی عرف سخی لالہ کو گزشتہ ہفتے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی پولیس نے ایک مشتعل ہجوم سے بچانے کے بعد گرفتار کیا تھا۔ اس ہجوم کادعویٰ  تھا کہ ملزم نے پیغمبر اسلام کی توہین کی تھی۔ بعد میں عبدالعلی  کو ایک پولیس افسر سعید محمد سرحدی نے دوران حراست فائرنگ کر کےمار ڈالا۔ اس پولیس افسر کو واقعے کے فوری بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں مقتول کے قبیلے اور  اہل خانہ کے افراد نے اس پولیس افسر کو یہ کہتے ہوئے معاف کر دیا کہ مقتول عبدالعلی نے پیغمبر اسلام کی توہین کر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔

توہین مذہب کے الزامات پر بڑھتا ہوا تشدد

اگرچہ پاکستان میں ہجوم کے ہاتھوں توہین رسالت کے مشتبہ ملزمان کی ہلاکتیں عام ہیں لیکن توہین مذہب کے معاملے میں پولیس کے ذریعے ماورائے عدالت قتل شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔   بعض اوقات توہین مذہب کے الزامات  محض افواہ ہی ہوتے ہیں اور اکثر ہجوم کے ذریعہ فسادات اور ہنگامہ آرائی کو جنم دیتے ہیں، جن کی نوبت انسانوں کی ہلاکتوں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

 پاکستان کے متنازعہ توہین رسالت کے قوانین کے تحت اسلام یا اسلامی مذہبی شخصیات کی توہین کے مرتکب پائے جانے والے کو موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم حکام نے ابھی تک توہین رسالت کے جرم میں موت کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں توہین مذہب کے مشتبہ افراد پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

  پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کا نشانہ صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ اہم حکومتی اور سیاسی شخصیات بھی بن  سکتی ہیں۔ سابق گورنر سلمان تاثیر کو بھی ان کے محافظ پولیس اہلکار نے توہین مذہب کے الزام پر کولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا
پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کا نشانہ صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ اہم حکومتی اور سیاسی شخصیات بھی بن سکتی ہیں۔ سابق گورنر سلمان تاثیر کو بھی ان کے محافظ پولیس اہلکار نے توہین مذہب کے الزام پر کولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھاتصویر: AP

جون میں ایک مشتعل ہجوم نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مدین میں ایک پولیس اسٹیشن میں گھس کر ایک زیر حراست شخص کو قران کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔ مقتول ایک سیاح تھا، جو لاہور سے سیاحت کی خاطر اس علاقے میں پہنچا تھا۔ اسی طرح گزشتہ برس صوبہ پنجاب کے ضلع جڑانوالہ میں ایک پر تشدد ہجوم نے کلیساؤں اور مسیحیوں کے گھروں پر یہ دعویٰ کرنے کے بعد حملے کیے کہ انہوں نے ایک مقامی مسیحی اور اس کے دوست کو قرآن کے صفحات کی بے حرمتی کرتے ہوئے دیکھا۔

 ان حملوں کی ملک بھر میں مذمت کی گئی، لیکن مسیحی برادری کا کہنا ہے کہ اس تشدد میں ملوث افراد کے خلاف مقدمے کی کارروائی ابھی تک شروع نہیں کی جا سکی۔

ش ر⁄ اب ا (اے پی)

نفسیاتی صدمے سے دو چار مسیحی خواتین اور بچے