1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سخت ترین مغربی پابندیاں، روس کی آخری امید چین

26 فروری 2022

یوکرائن پر حملے کے بعد روس پر سخت مغربی پابندیاں عائد کر دی گئیں ہیں اور ایسے میں روس کی واحد امید چین ہے، تاہم ماہرین کے مطابق چین کے لیے روس کے ساتھ تعاون کا مطلب امریکی اور یورپی منڈیوں سے ہاتھ دھونے کے برابر ہو گا۔

https://p.dw.com/p/47do3
Eröffnungsfeier | Olympische Winterspiele 2022 | Peking, China
تصویر: Alexei Druzhinin/AP/picture alliance

مغربی ممالک کی جانب سے روسی بینکوں، صنعتی ڈھانچے اور برآمدی شعبے میں سخت ترین پابندیوں کے نفاذ کے بعد ماسکو حکومت ان پابندیوں کے اثر کو زائل کرنے کے لیے دوسرے راستوں پر غور کر رہی ہے اور ایسے میں اس کے لیے سب سے بڑی امید چین ہو سکتا ہے۔ تاہم چینی صدر شی جن پنگ اس صورت حال میں نہایت محتاط ہیں اور اب تک ان کی جانب سے ایسے اشارے نہیں ملے کہ وہ یورپی اور امریکی منڈیوں تک اپنی رسائی سے دستبردار ہو کر روس کی مدد کے لیے آمادہ ہیں۔

امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ نے روسی صدر اور وزیر خارجہ پر پابندیاں عائد کردیں

یوکرائن: صدر پوٹن اور ان کے وزیر خارجہ پر پابندیوں کا امکان

ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر قدرتی گیس اور دیگر روسی برآمدات کے لیے دروازے کھول بھی دیے گئے، تو بھی اس کا روس کے لیے فائدہ محدود ہی ہو گا۔ سن 2012 میں شی جن پنگ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی ہے، تاہم ان دنوں ممالک کے مفادات کچھ مقامات پر متصادم بھی ہیں۔ دونوں ممالک کی فوجوں نے متعدد مواقع پر مشترکہ مشقیں کی ہیں،تاہم صدر پوٹن کو وسطیٰ ایشیا اور روس کے انتہائی مشرقی علاقوں میں چین کے بڑھتے اقتصادی اثرورسوخ پر تحفظات ہیں۔

شنگھائی یونیورسٹی آف پولیٹیکل سائنس اینڈ لا سے وابستہ بین الاقوامی امور کے ماہر لی شِن کے مطابق، روس اور چین کے درمیان تعلقات اپنی انتہائی بلند سطح پر ہیں، تاہم دونوں ممالک اتحادی نہیں ہیں۔

یوکرائن میں عسکری مداخلت کے بعد امریکا اور برطانیہ کے علاوہ 27 رکنی یورپی یونین نے روسی بینکوں، حکام، کاروباری شخصیات اور کمپنیوں کے علاوہ برآمدی شعبے اور صنعتی و عسکری ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد روسی اقتصادیات کو شدید بحران کا شکار کرنا ہے۔ ماہرین کے مطابق شی حکومت صدر پوٹن کی معاونت تو کرے گی، تاہم بہت محتاط انداز سے، تاکہ کہیں بھی کھلے عام ان پابندیوں کی خلاف ورزی نہ ہو کیوں کہ دوسری صورت میں خود چینی کمپنیاں ان پابندیوں کی لپیٹ میں آ سکتی ہیں۔

روس کی یوکرائن سے دوستی، دشمنی میں کیوں بدلی؟

چین اور روس کے درمیان گزشتہ برس تجارتی حجم بڑھ کر 146 اعشاریہ نو ارب ڈالر ہو چکا، تاہم امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ چینی تجارت کا حجم ایک اعشاریہ چھ ٹریلین ڈالر ہے۔

ماہرین کے مطابق چینی حکومت جو اقتصادی برتری کے ذریعے اپنی طاقت میں اضافہ کر رہی ہے کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کی یورپی اور امریکی منڈیوں تک رسائی محدود ہو،  تاہم روس پر پابندیوں میں پوٹن کی مدد کرنے کے لیے چین کو یہ قیمت چکانا ہو گی۔

ع ت، ب ج (اے پی)