1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رچرڈ باؤچر ایک بار پھر پاکستان کے دورے پر

شکور رحیم، اسلام آباد18 اکتوبر 2008

امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ برائے جنوبی ایشیا رچرڈ باؤچر کے ایک روزہ دورے کا مقصد، بعض مبصرین کی رائے میں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ’جائزہ‘ لینا تھا۔

https://p.dw.com/p/Fcjk
رچرڈ باؤچر کا دورہ معمول کی بات ہے: پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشیتصویر: AP

رچرڈ باؤچر نے پاکستانی مشیرِ داخلہ رحمان ملک سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات کی تفصیلات تو سرکاری طور پر سامنے نہیں آئی ہیں لیکن وزارتِ داخلہ کے زرائع کے مطابق ملاقات میں افغانستان سے ملحق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی کارروائی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مزید برآں اس ملاقات میں پاکستان میں امریکی شہریوں کے تحفظ اور پاکستانی صدر آصف زرداری کے حالیہ دورہِ چین ایسے امور پر بھی بات چیت ہوئی۔

Taliban, Archivbild
بعض مبصرین کی رائے میں امریکہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا خواہاں ہے مگر پاکستان کے اندر طالبان کے خلاف شدّت سے فوجی کارروائی کاتصویر: picture-alliance/dpa


بعد ازاں صدر زرداری کے دورہ ِچین کے بارے میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس کے دوران جب ان سے رچرڈ باؤچر کی آمد کی وجہ دریافت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے اور رچرڈ باؤچر کا دورہ ِ پاکستان معمول کی بات ہے۔

پاکستان کے بعض مبصرین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ نائب امریکی وزیرِ خارجہ رچرڈ باؤچر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لینے ہی آئے ہیں۔ اس بارے میں تجزیہ نگار کامران شفیع کا کہنا ہے کہ باؤچر کے دورے کے مقصد کا اندازہ افوجِ پاکستان کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ کے اس دعوے کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں فوج نے صوبہِ سرحد اور قبائلی علاقوں سے ایک سو اڑسٹھ غیر ملکیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ کامران شفیع نے ڈائچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رچرڈ باؤچر شاید دیکھنا چاہتے ہوں کہ پاکستان میں کوئی کام ہو بھی رہا ہے کہ نہیں، کیوں کہ پاکستان میں مختلف نوعیت کے ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اور کچھ معلوم نہیں کہ کون کیا کر رہا ہے‘۔

مبصرین کی یہ رائے بھی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکی لائحہ عمل میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور امریکہ بعض طالبان کے ساتھ بات چیت پر رضا مند ہے تاہم اس سلسلے میں پاکستان کی حمایت بھی درکار ہے۔