1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی جرائم کہیں ہماری روایت کا حصہ تو نہیں؟

26 ستمبر 2020

جنسی زیادتی کے حالیہ واقعات نے مجھے ایک انتہائی ناگزیر مسئلے یعنی ازدواجی جنسی زیادتی پر غور کرنے پر مجبور کر دیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں جو واضح طور پر اس مسئلے کو جرم ثابت کرے۔ صبا حسین کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3j2I2
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

خواتین کو پہلے ہی بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ شوہر کی جنسی خواہشات کی مکمل پاسداری ظاہر نہیں کرتیں تو فرشتے ان پر پوری رات لعنت بھیجیں گے۔ اس طرح ان کی اپنی خواہش غیر ضروری ہے۔ خواہش کا صاف مطلب ہے کسی انسان کی رضامندی کا شامل ہونا۔ اب اگر کسی عورت نے شادی کے لیے رضامندی کا اظہار کر لیا ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں نکلتا عورت مرد کی ملکیت ہوگئی اور وہ بغیر کسی رضا و تسلیم کے مسلط ہوجانے کا حق رکھتا ہے۔

ازدواجی جنسی زیادتی کو جرم قرار دینے کے حوالے سے پاکستان کا قانون آج تک مکمل خاموش ہے۔ سیکشن 375 جنسی زیادتی کے جرائم سے متعلق ہمارے پاس واحد قانون ہے اور اس قانون میں آج بھی شادی کا کوئی حوالہ شامل نہیں ہے۔ قانون سازی نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک ایک بھی کیس ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی منزل تک نہیں پہنچا۔ جائے بھی کیسے۔ جہاں قانون کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے وہاں ایک خاتون کی ترجمانی کیسے ہوپائے گی۔

یہ بھی پڑھیے:

جب جُرم بھی فینٹسی بن جائے

جنسی زیادتی، کیا چوک پر لٹکا دینا مسئلے کا حل ہے؟

ایک جرم آدھے لمحے کا اور ’پاک سرزمین‘ جو ہلی تو مگر پھٹ نہ سکی

اس بات سے اندازہ لگائیے کہ دو سال قبل ملتان میں ازدواجی جنسی زیادتی کا ایک مشہور کیس سامنا آیا تو اس کی سماعت جنسی زیادتی کی دفعہ 375 کے تحت نہیں ہوئی۔ اس کیس کو دفعہ 377 کے تحت سنا گیا تھا، جو در اصل ''جسمانی نوعیت کے غیر فطری جرائم‘‘ کا احاطہ کرتا ہے، چاہے وہ خواتین کے خلاف ہوں یا پھر جانوروں کے خلاف۔

دوم، قانون سازی نہ ہونے سے یہ سوچ بھی پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے سماج میں جنسی زیادتی کی معنی ہی کچھ مختلف ہے۔ اس کے معنی تو یہ نکلتا ہے کہ جنسی زیادتی کا تعلق عورت کے جسم اور رضا کو پہنچنے والی کسی ٹھیس سے نہیں بلکہ مرد کے مالکانہ حقوق سے ہے۔ اس سارے معاملے سے یہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک عورت جب پیدا ہوتی ہے تو خاندان کی جائیداد سمجھی جاتی ہے اور شادی کے بعد وہ شوہر کی ملکیت بن جاتی ہے۔ چونکہ وہ شوہر کی ملکیت ہے  تو یہ تصور کرنا ہی مشکل ہے کہ آخر کوئی شخص اپنی ملکیت کیسے چوری کرسکتا ہے۔

مگر اس ظالم حقیقت کا کیا کیا جائے کہ عورت ایک انسانی وجود بھی ہے۔ فہمیدہ ریاض کے بقول:

ابھرے پستانوں سے اوپر

اقلیما کا سر بھی ہے

اچھا، مزے کا ایک سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو والدین اپنے بچوں کی زبردستی شادیاں کرواتے ہیں کیا وہ جنسی زیادتی کے کسی زمرے میں آتی ہیں؟ اور اگر  اپنے رواجوں سے ہٹ کر ذرا غور کیا جائے تو کیا اسے جنسی جبر کے علاوہ کچھ سمجھا جاسکتا ہے؟

آپ کو ضرور لگ رہا ہوگا کے یہ ساری باتیں کر کے پاکیزہ سماج کے ایک اچھے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر معذرت کے ساتھ، ہر سماج اپنے سماجی مسائل کے حل کے لیے ارتقائی سفر سے گزرتا ہے اور یوں وہ اپنے سماجی معاملات میں مزید وسعت اور آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

ہمارے بہت سارے مسائل کا تعلق مساوات اور برابری کے نہ ہونے سے ہے۔ عورت کو برابری کا درجہ حاصل ہونے سے سماج کی پاکیزگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ سماج کو بہت سے مسائل سے بیٹھے بٹھائے نجات مل جائے گی۔  فوری طور پر جس مسئلے سے نجات مل سکتی ہے وہ جنسی جرائم کا مسئلہ ہے۔ ذرا سوچیں کہ جنسی زیادتی کرنے والے جرائم صرف بچوں اور عورتوں تک ہی کیوں محدود ہیں؟ کیونکہ ہمارا سماج عورتوں اور بچوں کو کمزور سمجھتا ہے، پھر اس کا حق مارنے کو اپنا حق سمجھتا ہے اور یوں وہ آسان ہدف بن جاتے ہیں۔

جب تک ریاست ہر فرد کی ذمہ داری نہیں لے لیتی تب تک عورت گھر میں ہو یا گھر سے باہر، اسی طرح بےحرمتی کا شکار ہوتی رہے گی اور جنسی جرائم کو فروغ ملتا رہے گا۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں