1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تمہاری نگاہ ڈرون جیسی‘ مقبول پشتو شاعری کا بدلتا رنگ

عابد حسین5 جولائی 2015

پاکستان کے قبائلی علاقے میں خانہ جنگی جیسے حالات نے پشتو کے مقبول کلچر یعنی پاپ میوزک پر بھی گہرے نقش ثبت کیے ہیں۔ جدید موسیقی کے گیتوں میں ڈرون، بم، اور تباہی کو استعاروں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fsx8
پاکستانی فلم انڈسٹری میں ڈانس کی روایت قائم ہےتصویر: Getty Images/Afp/Sebastian D'Souza

اگر ایک طرف پاکستانی انتہا پسند جہادی جمالیاتی فنون کی ہر شکل میں مخالفت کر رہے تو دوسری جانب مقبول موسیقی (Pop Music) میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری خونی کارروائیوں کے اثرات نفوذ کرتے جا رہے ہیں۔ پشتو کے قدامت پسند حلقے پاپولر موسیقی کے لیے لکھی جانے والی شاعری کو لچر، عامیانہ اور ظلم کو فروغ دینے کا ایک نیا سلسلہ قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب بہت بڑی تعداد میں لوگ اییسے فلمی گیتوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اِن گیتوں میں شعرا نے محبوب کی نگاہوں کو ڈرون حملے سے تعبیر کیا ہے۔ پشتو کے مقبول گلوکار رحیم شاہ کا ایک گیت دو تین برس سے بہت مقبول ہے۔ اِس گیت کا پشتو نام’ شابا تباہی اُوکا‘ یعنی ’سب کچھ تباہ کردو‘ ہے۔ یہ گیت ایک فلم میں معروف اداکار ارباز خان پر پکچرائز کیا گیا ہے۔ وہ ڈانس کرتے ہوئے گیت گاتا ہے:

آؤ اور میری آنکھوں میں دیکھو

دل پر حملہ کرو

آؤ اور سب کچھ تباہ کردو

اِس گیت میں ایک خاتون ابھرتی ہے اور وہ مٹکاتے ہوئے کولہوں کے ساتھ جواباً کہتی ہے:

میری طرف دیکھو

میرے دِل پر بم مارو

آؤ اور سب کچھ تباہ کر دو

اِس فلمی گیت میں ارباز خان رقص اپنی من پسند خاتون کے گرد اچھلتے کودتے ڈانس کرتے ہوئے گیت کو آگے بڑھاتا ہے:

میری لیلیٰ کی آنکھوں میں بم ہیں

وہ اپنی نگاہوں سے مجھے مارنے کی کوشش میں ہے

تمہارے ہونٹ آتشیں ہیں،

تمہارا ٹاپ مختصر اور پینٹ چُست ہے

Arbaz Khan Pakistani film actor
پشتو فلموں کے مشہور اداکار ارباز خانتصویر: Pushto Film

پشتو کی مقبول موسیقی میں بظاہر یہ ایک بے ربط سا گیت ہے لیکن آج بھی بہت مقبول ہے۔ یہ گیت ایک پشتو فلم ’غدار‘ میں شامل کیا گیا تھا اور یہ سن 2012 میں ریلیز ہوئی تھی۔ تین سال سے زائد عرصے کے بعد بھی یہ گیت مقبولیت کی بلندیوں پر ہے۔ اِس گیت کو یُو ٹیُوب اور ڈیلی موشن پر دیکھا جا سکتا ہے۔

پشتو زبان پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کی مرکزی زبان تصور کی جاتی ہے۔ یہی صوبہ اپنے قبائلی علاقے میں خانہ جنگی جیسے حالات کا مسلسل سامنا کر رہا ہے۔ اِسی صوبے میں پروان چڑھنے والے قبائلی عسکریت پسندوں نے باغیانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا اور پھر انہیں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈرونز حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈرون حملوں اور دوسری پرتشدد کارروائیاں اتنی زیادہ رونما ہوئیں کہ وہ جدید پاپولر میوزک کلچر میں سرایت کر گئیں۔ سن 2014 میں ریلیز ہونے والی پشتو فلم ’ دا خُوکلَو بادشاہی دا‘ یعنی ’شاہی حسینوں کا حق ہے‘ میں ایک ہوش ربا رقص پر فلمائے گئے گیت کے بول ہیں:

میرے ہونٹ شیریں ہیں

جن پر ایک میٹھا گیت ہے

میری نشیلی نگاہیں، شراب کا جام

میری آنکھیں ڈرون کی طرح خطرناک ہیں

ہر کوئی ایسے گیتوں سے متاثر نہیں ہے۔ مشہور گلوکار بختیار خٹک کا کہنا ہے کہ بعض فنکار خونی حالات کو شاعری اور موسیقی کے ذریعے پیسے کمانے کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔ خٹک نے یہ تسلیم کیا کہ شاعر حقیقت نگاری سے چشم پوشی نہیں کر سکتے اور یقینی طور پر ایسے گیت اور شعر لکھنے پر مجبور ہیں جو اُن کے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں لیکن فلم ساز دانستہ ایسے گیتوں کو فلموں کا حصہ بنا کر ایک منفی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ ایک اور مقبول گلوکار ظفر اقرار نے اپنے ایک گیت میں دوسرا رخ پیش کرتے ہوئے اپنے ویران اور اجاڑ وطن کو گیت میں سمویا ہے۔ اقرار نے اپنے گیت میں محبوب سے درخواست کی ہے کہ وہ اب لوٹ کر اپنے گاؤں نہ آئے کیونکہ سب کچھ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔

پشتو زبان و ادب اور تاریخ کے استاد اسلم تاثیر آفریدی کا کہنا ہے کہ پرتشدد حالات نے معاشرے، تہذیب و ثقافت، شاعری اور فلمی گیتوں کو شدید انداز میں متاثر کیا ہے۔ آفریدی کے مطابق اِن خونی حالات سے صرف جمالیاتی فنون ہی متاثر نہیں بلکہ بچوں کی تفریحی سرگرمیاں بھی متاثر ہیں۔ اُن کے مطابق بچے اب ایسے کھیل سے لطف لیتے میں جن میں ایک گروپ فوجی اور دوسرا طالبان کا ہوتا ہے۔ ایسے اثرات کی نفی میں بختیار خٹک اور گلوکارہ لیلیٰ خان نے چند گیت گائے ہیں جن میں خوابوں کے بکھر جانے اور امن دشمنوں کی کارروائیوں کا رونا رویا گیا ہے۔ تاثر کا مزید کہنا ہے کہ انتہا پسند براہ راست پشتو جمالیاتی کلچر دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، حتیٰ کہ وہ رحمٰن بابا جیسے شاعر کے مزار کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔