بھارت: پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کی خاندانی زمین نیلام
6 ستمبر 2024ایک مقامی اعلیٰ سرکاری افسر نے بتایا کہ اس زمین کے لیے آن لائن بولیاں لگیں اور بنیادی قیمت سے کئی گنا زیادہ بولی لگی۔ انہوں نے بتایا کہ تیرہ بیگھہ زمین کی بنیادی قیمت 39 لاکھ 6 ہزار روپے رکھی گئی تھی لیکن ساڑھے تین گنا زیادہ ایک کروڑ 38 لاکھ 16 ہزار پر بولی ختم ہوئی۔
زمین کا یہ قطعہ اترپردیش میں پرویز مشرف کے آباواجداد کی آخری زمین تھی۔ یہ باغپت ضلع میں بڑوت تحصیل کے کوتانہ بانگر گاؤں میں ہے۔ کوتانہ گاؤں میں ان کی اور بھی خاندانی زمینیں تھیں، جو پہلے ہی نیلام کی جاچکی ہیں۔
تاریخ میں پرویز مشرف کو کیسے یاد رکھا جائے گا؟
بھارت کا پرویز مشرف کو ویزا دینے سے انکار
بڑوت کے ایس ڈی ایم امر ورما نے بتایا کہ جو زمین کل نیلام ہوئی اس کا پرویز مشرف سے براہ راست تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد سید مشرف الدین اور والدہ زرین بیگم دہلی، جہاں پرویز مشرف کی پیدائش ہوئی، منتقل ہونے سے قبل کوتانہ میں ہی رہتے تھے۔
پرویز مشرف نے صدر پاکستان کی حیثیت میں سن 2001 میں بھارت کے اپنے پہلے دورے کے دوران دہلی کے دریا گنج میں واقع نہر والی کا دورہ کیا تھا، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔
سن دو ہزار پانچ میں مشرف کی والدہ اپنے بیٹے جاوید مشرف اور پوتے (مشرف کے بیٹے) بلال کے ساتھ نہروالی حویلی دیکھنے آئی تھیں۔ اس سے قبل بھی سن 1982 میں وہ دریا گنج آئی تھیں۔
مشرف غدار ہیں یا نہیں، سوشل میڈیا پر پاکستانی تقسیم کا شکار
ایس ڈی ایم امر ورما نے بتایا کہ مشرف کے والد کا کوتانہ میں مکان تھا جس پر بعد میں مقامی لوگوں نے قبضہ کر لیا۔ انہوں نے بتایا،"ان کے چچا، ہمایوں جو کوتانہ میں رہے، بعد میں اپنی زمین بیچ کر ملک چھوڑ گئے۔ لیکن یہ زمین بھارتی حکومت نے اپنے قبضے میں لے لی اور اسے "دشمن کی ملکیت" قرار دے دیا۔
کوتانہ گاؤں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے ایک رشتے دار نورو پاکستان منتقل ہونے سے قبل قیام پاکستان کے اٹھارہ سال بعد تک کوتانہ میں رہے۔ گاؤں میں ان کی دو ہیکٹیئر زمین تھی جسے سن 2010 میں "دشمن کی ملکیت" قرار دے دیا گیا۔
'دشمن کی ملکیت' کا مطلب
'دشمن کی ملکیت' سے مراد وہ جائیداد ہے جو بھارت میں پاکستانی اور چینی شہریت لینے والے لوگوں نے چھوڑی ہے۔
ایسی جائیدادوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد 1968 میں اینمی پراپرٹی ایکٹ نافذ کیا گیا تھا۔ سن 1962 کی چین بھارت جنگ کے بعد چین جانے والوں کی چھوڑی ہوئی جائیداد کے لیے بھی ایسا ہی کیا گیا۔ ان جائیدادوں کی ملکیت ایک سرکاری محکمے کو دے دی گئی جسے ہندوستان میں کسٹوڈین فار اینمی پراپرٹی کہا جاتا ہے۔
اینمی پراپرٹی (ترمیم اور توثیق) ایکٹ، 2017 میں اصل ایکٹ کی چند شقوں میں ترمیم کی گئی ہے۔ جس کے بعد منقولہ جائیدادوں کو بھی دشمن کی ملکیت میں شامل کرلیا گیا۔