بھارت: تین طلاق پر سپریم کورٹ میں مودی حکومت کے دلائل
19 اگست 2024بھارت کی مودی حکومت نے تین طلاق سے متعلق سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آخر اس نے اس رواج کے خلاف نیا قانون کیوں وضع کیا۔
بھارت: مسلمانوں کے متعلق سپریم کورٹ کا ایک اور متنازعہ فیصلہ
مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ تین طلاق کا رواج "شادی کے سماجی ادارے کے لیے مہلک" ہے، جس سے "مسلم خواتین کی حالت انتہائی قابل رحم ہو جاتی ہے۔"
بھارت: تین طلاق کے بعد اب 'طلاق حسن' کا تنازعہ
مودی کی حکومت نے چند برس قبل تین طلاق کے رواج کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ایک قابل سزا "مجرمانہ فعل" قرار دیا تھا۔
بھارتی مسلمان خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ طلاق ثلاثہ نہیں!
مسلم تنظیموں نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت سے کہا کہ چونکہ خود سپریم کورٹ نے 'تین طلاق' کے رواج کو کالعدم قرار دے دیا ہے، تو پھر اسے مجرمانہ فعل قرار دینے کے لیے قانون بنانے کی ضرورت کیا تھی۔
حکومت نے کیا کہا؟
پیر کے روز اسی کیس کی سماعت کے دوران اپنے جوابی حلف نامے میں حکومت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس رواج کو ختم کرنے کا جو فیصلہ سنایا تھا، "اس سے تین طلاق کے رواج کی تعداد کو کم کرنے میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں آئی تھی، اس لیے قانون بنانے کی ضرورت پڑی۔"
'بھارت کی مسلمان خواتین کے لیے بڑی کامیابی‘
حکومت نے اپنی دلیل میں کہا، "تین طلاق کے متاثرین کے پاس پولیس سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔۔ اور چونکہ اس بارے میں قانون میں تعزیراتی دفعات موجود نہیں تھیں، اس لیے پولیس بے بس تھی اور ایسے شوہروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس کو روکنے کے لیے سخت (قانونی) دفعات کی فوری ضرورت تھی۔"
بھارت: لوک سبھا میں تین طلاق بل منظور لیکن منزل ابھی دور
حکومت کا یہ حلف نامہ اس درخواست کے جواب میں آیا ہے، جس میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ چونکہ سپریم کورٹ نے 'تین طلاق' کے رواج کو کالعدم قرار دے دیا تھا، اس لیے اسے جرم قرار دینے کے لیے قانون بنانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
اس ماہ کے اوائل میں جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والی ایک مسلم تنظیم 'سمستھ کیرالہ جمعیت العلماء نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی، جس میں ادارے نے بطور دلیل بہت سے دیگر نکات پر اعتراض کرتے ہوئے "مسلم خواتین (شادی کے حقوق کے تحفظ) سے متعلق ایکٹ سن 2019 کو غیر آئینی قرار دیا۔
بیک وقت تین طلاقیں: بھارتی سپریم کورٹ میں سماعت شروع
واضح رہے کہ مودی حکومت نے تین طلاق کے خلاف قانون سن 2019 میں وضع کیا تھا اور اسی مناسبت سے اس کا نام مسلم خواتین تحفظ ایکٹ سن 2019 ہے۔
مسلم خواتین کو بیک وقت تین طلاقیں دینا ناانصافی ہے، مودی
مسلم درخواست گزاروں کا استدلال ہے کہ اس ایکٹ سے، بھارتی شہریوں کو قانون کے سامنے برابری کی ضمانت دینے اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ کرنے جیسے آئینی حقوق سمیت، دیگر بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
حکومت نے مزید کیا وضاحت پیش کی
حکومت نے مسلم درخواست گزاروں کے دعووں کو یہ دلیل دیتے ہوئے مسترد کرنے کی کوشش کی کہ 'تین طلاق' کے عمل سے "آئین کے تحت خواتین کو حاصل بنیادی حقوق اور مساوات کے حقوق کی نفی ہوتی ہے۔"
تین طلاقیں غیر آئینی ہیں، بھارتی سپریم کورٹ
حکومت کا کہنا ہے کہ "پارلیمنٹ نے اپنی دانشمندی کے ساتھ، 'تین طلاق' کے ذریعے طلاق دی جانے والی شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس ایکٹ کو نافذ کیا ہے۔ زیر بحث قانون صنفی انصاف اور شادی شدہ مسلم خواتین کے مساوات کے وسیع تر آئینی اہداف کو یقینی بنانے میں مدد کرتا ہے۔"
بھارتی مسلم خواتین ’بہ یک وقت تین طلاقوں‘ کےخلاف میدان میں
حکومت نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ خود ماضی میں یہ بات کہہ چکی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کی حکمت میں نہیں جا سکتی اور نہ ہی اس بات پر بحث و سوال کر سکتی ہے کہ قانون کس طرح کا ہونا چاہیے۔
بھارت کی بے سہارا اور بے آسرا ’سنگل‘ عورتیں
حکومت نے اپنی دلیل میں مزید کہا، "یہ صرف مقننہ کا کام ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ ملک کے لوگوں کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہے اور ایوان کو اپنے اختیارات کی حد میں رہتے ہوئے اپنے افعال کو بروئے کار لانے کے لیے وسیع تر اجازت ہونی چاہیے، ورنہ تمام پیش رفت رک جائے گی۔"
اس نے اپنی دلیل میں مزید کہا، "کسی خاص قسم کے فعل کو مجرم قرار دیا جانا چاہیے یا نہیں اور اس فعل کے لیے کیا سزا ہونی چاہیے، اس کا تعین موجودہ سماجی حالات کی روشنی میں مقننہ کو کرنے کا حق ہے۔"