1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم خواتین کو بیک وقت تین طلاقیں دینا ناانصافی ہے، مودی

صائمہ حیدر
24 اکتوبر 2016

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں مسلم خواتین کو بیک وقت تین طلاقیں دینے کی متنازعہ روایت کو ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان عورتوں کو مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا نشانہ نہ بنایا جائے۔

https://p.dw.com/p/2Rd49
Indien Unabhängigkeitstag in Neu-Delhi
مودی نے کہا ہے کہ مذہب اور برادری کے نام پر ہماری ماؤں بہنوں کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہونی چاہیےتصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
Indien Unabhängigkeitstag in Neu-Delhi
مودی نے کہا ہے کہ مذہب اور برادری کے نام پر ہماری ماؤں بہنوں کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہونی چاہیےتصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

بھارتی آئین کے تحت ملک کے مسلمان مرد شہری اپنی بیویوں کو بیک وقت تین طلاقیں دے کر ان سے قانونی علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ ملکی آئین میں 1.2 بلین بھارتی شہریوں کو شادی، طلاق اور وراثتی معاملات میں اپنے اپنے مذہبی قوانین اور ضابطوں پر عمل پیرا رہنے کا حق دیا گیا ہے۔

بھارت میں مسلمانوں، مسیحیوں اور ہندوؤں کو قانونی اور آئینی طور پر حاصل اسی مذہبی آزادی کی وجہ سے یہ اجازت ہے کہ وہ اپنے خاندانی معاملات اور نجی قانونی مسائل کو اپنے اپنے مذہب کے احکامات اور ضوابط کی روشنی میں حل کر سکیں۔ ان ضوابط میں مسلم مردوں کو اپنی بیویوں کو ایک ہی وقت میں تین بار طلاق دے سکنے کا حق بھی شامل ہے۔ اس حق کا کئی بھارتی مرد استعمال بھی کرتے ہیں لیکن بہت سی بھارتی مسلم خواتین کو اس پر شدید تحفظات بھی ہیں۔

بھارتی مسلمانوں میں اس طرح طلاق کی روایت کو حالیہ برسوں میں کئی بار قانونی چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس پر نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے کہا کہ وہ اس حوالے سے مختلف قوانین کو ایک ایسے یکساں نوعیت کے سول ضابطے کے ساتھ بدل دینا چاہتی ہے، جسے ملکی آبادی میں تمام مذاہب کے شہریوں پر لاگو کیا جا سکے۔ مودی حکومت کی اس تجویز کی تاہم کئی مسلم تنظیموں اور شہری گروپوں کی طرف سے مخالفت کی گئی ہے، جن کے مطابق کوئی بھی نیا یکساں سول ضابطہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ’امتیازی سلوک‘ سمجھا جائے گا۔

Muslimische Wählerinnen in Indien 10.04.2014
تین بار طلاق کا حق کئی بھارتی مسللمان مرد استعمال بھی کرتے ہیں لیکن بہت سی بھارتی مسلم خواتین کو اس پر شدید تحفظات بھی ہیںتصویر: Reuters

اس بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اب ریاست اتر پردیش میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران کہا، ’’میری مسلمان بہنوں نے کیا گناہ کیا ہے کہ ٹیلی فون پر بھی انہیں تین بار طلاق کا لفظ کہہ کر ان کی پوری زندگی برباد کر دی جائے۔‘‘

مودی نے آج پیر چوبیس اکتوبر کے روز اپنے اس خطاب میں کہا، ’’مذہب اور برادری کے نام پر ہماری ماؤں بہنوں کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ اتر پردیش بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی یونین ریاست ہے اور مسلمان وہاں کی آبادی کا بیس فیصد ہیں۔ اس موقع پر نریندر مودی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمان خواتین کے حقوق کی بحالی کو یقینی بنانا ان کی حکومت کا ایک اہم فریضہ ہے۔

اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے مزید کہا، ’’جب بات خواتین کے احترام اور حفاظت کی ہو تو ہمیں کسی مذہب کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ انتخابات اور سیاست کو ایک طرف رکھا جانا چاہیے۔ مسلمان خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی اپنے حقوق حاصل کریں۔‘‘

بھارتی سپریم کورٹ میں ان دنوں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم متعدد کارکنوں کی جانب سے کسی مسلم ‌خاتون کو بیک وقت تین بار طلاق کا لفظ کہہ کر طلاق دینے کے عمل کے خلاف مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ اس مقدمے میں درخواست دہندگان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں مسلم عورتوں سے متعلق ’بیک وقت تین طلاقوں کی روایت‘ کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔