1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی ہیکرز کی کارروائیوں پر پاکستان میں تشویش

6 نومبر 2022

برطانوی صحافتی اداروں ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارتی ہیکرز نے اہم پاکستانی فوجی اور سول شخصیات کو ہیکنگ کا نشانہ بنایا۔ ماہرین کے خیال میں پاکستان کو اپنی سائبر سکیورٹی پر توجہ دینے کی اشد ضروررت ہے۔

https://p.dw.com/p/4J7z7
Iran | Anonymous Anti Hijab Protest für Jina Mahsa Amini
تصویر: SalamPix/abaca/picture alliance

انڈین ہیکرز کی طرف سے حال ہی میں پاکستانی سیاست دانوں ، فوجی افسران اور سفارت کاروں کی  نجی گفتگو کی جاسوسی کے انکشاف پر پاکستان میں تشویش پائی جاتی ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر مواصلاتی اور آن لائن کمیونیکشن کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔

سائبر سکیورٹی اور پاکستان، بھارت سائبر وار

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان انٹرنیٹ کی اس تیز رفتار اور آئے دن بدلتی دنیا میں مختلف طرز کی جدید ٹیکنالوجی میں ترقی کر کہ خود انحصاری نہیں اپناتا، اسے ہمہ وقت سائبر جرائم  کے خطرات لاحق رہیں گے۔

Pakistan | Ex Präsident Pervez Musharraf
رپورٹ کے مطابق سابق فوجی صدر پرویز مشرف بھی ہیکنگ کا نشانہ بننے والی اہم ہاکستانی شخصیات میں سے ہیںتصویر: Rafat Saeed/DW

واضح رہے کہ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز اور لندن میں قائم تحقیقاتی صحافت کے ایک ادارے بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انڈین ہیکرز کے ایک گینگ نے پاکستانی سیاست دانوں، جرنیلوں اور سفارتکاروں کی نجی گفتگو کو بھارتی جاسوسی ادارے کے کہنے پر ہیک کیا۔

ہیکروں کے نشانے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف بھی رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس سال دس جنوری کو سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چودھری کے ای میل اکاؤنٹ کو بھی ہیک کیا گیا۔ سنڈے ٹائمز اور اوردی بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے فواد چوہدری کے ان باکس کا اسکرین شاٹ بھی دیکھا ہے۔

Pakistan Informationsminister Fawad Chaudhry
سابق پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ای میل اکاؤنٹ بھی مبینہ طور پربھارتی ہیکرز کے ہتھے چڑھ گیا تھاتصویر: AAMIR QURESHI/AFP

ہیکر نے ایک میل کے ذریعے فواد چوہدری کے اکاونٹس تک رسائی حاصل کی اور پھر ہیکروں کی ٹیم نے اسی طریقے سے سینیئر فوجی افسران، بیجنگ، شنگھائی اور کھٹمنڈو میں متعین پاکستانی سفارت خانوں کے افسران کے اکاونٹس کو ٹارگٹ کیا۔

 خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت سائبر سکیورٹی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان سے کئی گناہ زیادہ مہارت رکھتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایمازون پر  ٹیکنالوجی سے متعلق کتابوں کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں امریکہ اور بھارت شامل ہیں۔ بھارت کے کئی شہر اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مراکز سمجھے جاتے ہیں۔

مودی کی قیادت میں پاکستان کے خلاف عسکری اقدام کا امکان زیادہ ہے، امریکی رپورٹ

تشویش کی لہر

دفاعی امور کے ایک ماہر جنرل  ریٹائرڈ غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کی ہیکنگ سنگین تشویش کا باعث ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت یقیناﹰ آئی ٹی ٹیکنالوجی میں پاکستان سے بہت زیادہ آگے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بڑے پیمانے پر ایسی جامعات قائم کریں، جس میں آئی ٹی اور سائبر سکیورٹی کے حوالے سے ماہرین پیدا کیے جا سکیں۔ اس وقت  ہمارے پاس جو ماہرین ہیں وہ زیادہ تر چھوٹے موٹے سافٹ ویئر بنا کر کر پیسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر ماہرین پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔‘‘

ٹیکنالوجیکل مہارت میں خود کفالت

  غلام مصطفٰی کے مطابق جب تک پاکستان ٹیکنالوجیکل معاملات میں خود کفالت حاصل نہیں کرتا اور ایجادات کی طرف نہیں جاتا،  اس وقت  اسی طرح کا خطرہ رہے گا۔ '' تشویش کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس بھی اس طرح کی مہارت ہے۔ ٹیکنالوجیکل معاملات میں اسرائیل اور بھارت کا قریبی تعاون بھی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیلی کمپنیوں میں بھارتی نوکریاں کررہے ہوں اور وہ اپنی مہارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں۔‘‘

Konflikt Indien Pakistan

عدم تیاری

سندھ کے سابق وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی رضا ہارون کا کہنا ہے کہ ان کے دور میں پاکستان سائبر سکیورٹی کے حوالے سے بہت اچھی طرح تیار نہیں تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے ہاں بہت سارے لوگ ونڈوز اور دوسرے سافٹ ویئرز کی جعلی نقول استعمال کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہیکنگ آسان ہو جاتی ہے۔ ابھی کچھ عرصے پہلے ہی حکومتی اداروں کی ویب سائٹ ہیک ہوئی تھی اور میرا نہیں خیال کہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔‘‘

بھارت اور پاکستان میں بات کیوں نہیں بن پا رہی؟

 رضا ہارون کا کہنا تھا کہ انہیں صرف ایک وفاقی ادارے کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ سائبر سکیورٹی کی ذمہ داری نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن ( این ٹی سی) کے ادارے کی ہے۔ '' لیکن اس حوالے سے مجھے بحیثیت وزیر کبھی کوئی بریفنگ نہیں دی گئی  لیکن عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان سائبر سکیورٹی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھارت سے بہت پیچھے ہے، اور ہم  ہیکرز کے حملے روکنے کے حوالے سے بھی کمزور ہیں۔‘‘

Pakistan |  General Babar Iftikhar
پاکستان کے فوجی اہلکاروں کی ہیکنگ کے واقعات سے متعلق رپورٹ نے دفاعی حلقوں میں تشویش کو جنم دیا ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP

لازمی احتیاط

 تاہم کچھ ماہرین کے خیال میں ہیکنگ پوری دنیا میں عام ہے، تو ریاستوں میں اہم عہدوں پر جو شخصیات ہیں وہ اس بات کا خیال رکھتی ہوں گی۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کر رہا ہے۔ انہوں ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میرا خیال ہے کہ پاکستان پہلے ہی اس حوالے سے اقدامات کر رہا ہے۔ حساس علاقوں میں تو آپ موبائل بھی لے کر نہیں جا سکتے اور جو افسران حساس معلومات رکھتے ہوں گے وہ یقیناﹰ پوری احتیاط کرتے ہیں۔ ای میل میل اکاؤنٹ استعمال کرنے کے بجائے، اس طرح کے امور کسی اجلاس میں موضوع بحث بنتے ہوں گے۔‘‘

ڈاکٹر ظفر نواز کے مطابق عموماﹰ سیاسی شخصیات اور اہم عہدے داروں کے دو ای میل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہوتے ہیں۔ ''ان کے نجی اکاؤنٹس کے لئے شاید بہت سخت اقدامات نہ کیے جاتے ہوں لیکن جو ادارہ جاتی اکاؤنٹس ہوتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے بہت سخت اقدامات کیے جاتے ہیں اور ان کی سکیورٹی کو توڑنا یا ہیکنگ کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس حوالے سے سرکاری موقت بیان کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہو سکے۔