بھارتی ہیکرز کی کارروائیوں پر پاکستان میں تشویش
6 نومبر 2022انڈین ہیکرز کی طرف سے حال ہی میں پاکستانی سیاست دانوں ، فوجی افسران اور سفارت کاروں کی نجی گفتگو کی جاسوسی کے انکشاف پر پاکستان میں تشویش پائی جاتی ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر مواصلاتی اور آن لائن کمیونیکشن کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔
سائبر سکیورٹی اور پاکستان، بھارت سائبر وار
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان انٹرنیٹ کی اس تیز رفتار اور آئے دن بدلتی دنیا میں مختلف طرز کی جدید ٹیکنالوجی میں ترقی کر کہ خود انحصاری نہیں اپناتا، اسے ہمہ وقت سائبر جرائم کے خطرات لاحق رہیں گے۔
واضح رہے کہ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز اور لندن میں قائم تحقیقاتی صحافت کے ایک ادارے بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انڈین ہیکرز کے ایک گینگ نے پاکستانی سیاست دانوں، جرنیلوں اور سفارتکاروں کی نجی گفتگو کو بھارتی جاسوسی ادارے کے کہنے پر ہیک کیا۔
ہیکروں کے نشانے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف بھی رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس سال دس جنوری کو سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چودھری کے ای میل اکاؤنٹ کو بھی ہیک کیا گیا۔ سنڈے ٹائمز اور اوردی بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے فواد چوہدری کے ان باکس کا اسکرین شاٹ بھی دیکھا ہے۔
ہیکر نے ایک میل کے ذریعے فواد چوہدری کے اکاونٹس تک رسائی حاصل کی اور پھر ہیکروں کی ٹیم نے اسی طریقے سے سینیئر فوجی افسران، بیجنگ، شنگھائی اور کھٹمنڈو میں متعین پاکستانی سفارت خانوں کے افسران کے اکاونٹس کو ٹارگٹ کیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت سائبر سکیورٹی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان سے کئی گناہ زیادہ مہارت رکھتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایمازون پر ٹیکنالوجی سے متعلق کتابوں کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں امریکہ اور بھارت شامل ہیں۔ بھارت کے کئی شہر اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مراکز سمجھے جاتے ہیں۔
مودی کی قیادت میں پاکستان کے خلاف عسکری اقدام کا امکان زیادہ ہے، امریکی رپورٹ
تشویش کی لہر
دفاعی امور کے ایک ماہر جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کی ہیکنگ سنگین تشویش کا باعث ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت یقیناﹰ آئی ٹی ٹیکنالوجی میں پاکستان سے بہت زیادہ آگے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بڑے پیمانے پر ایسی جامعات قائم کریں، جس میں آئی ٹی اور سائبر سکیورٹی کے حوالے سے ماہرین پیدا کیے جا سکیں۔ اس وقت ہمارے پاس جو ماہرین ہیں وہ زیادہ تر چھوٹے موٹے سافٹ ویئر بنا کر کر پیسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر ماہرین پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔‘‘
ٹیکنالوجیکل مہارت میں خود کفالت
غلام مصطفٰی کے مطابق جب تک پاکستان ٹیکنالوجیکل معاملات میں خود کفالت حاصل نہیں کرتا اور ایجادات کی طرف نہیں جاتا، اس وقت اسی طرح کا خطرہ رہے گا۔ '' تشویش کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس بھی اس طرح کی مہارت ہے۔ ٹیکنالوجیکل معاملات میں اسرائیل اور بھارت کا قریبی تعاون بھی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیلی کمپنیوں میں بھارتی نوکریاں کررہے ہوں اور وہ اپنی مہارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں۔‘‘
عدم تیاری
سندھ کے سابق وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی رضا ہارون کا کہنا ہے کہ ان کے دور میں پاکستان سائبر سکیورٹی کے حوالے سے بہت اچھی طرح تیار نہیں تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے ہاں بہت سارے لوگ ونڈوز اور دوسرے سافٹ ویئرز کی جعلی نقول استعمال کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہیکنگ آسان ہو جاتی ہے۔ ابھی کچھ عرصے پہلے ہی حکومتی اداروں کی ویب سائٹ ہیک ہوئی تھی اور میرا نہیں خیال کہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔‘‘
بھارت اور پاکستان میں بات کیوں نہیں بن پا رہی؟
رضا ہارون کا کہنا تھا کہ انہیں صرف ایک وفاقی ادارے کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ سائبر سکیورٹی کی ذمہ داری نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن ( این ٹی سی) کے ادارے کی ہے۔ '' لیکن اس حوالے سے مجھے بحیثیت وزیر کبھی کوئی بریفنگ نہیں دی گئی لیکن عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان سائبر سکیورٹی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھارت سے بہت پیچھے ہے، اور ہم ہیکرز کے حملے روکنے کے حوالے سے بھی کمزور ہیں۔‘‘
لازمی احتیاط
تاہم کچھ ماہرین کے خیال میں ہیکنگ پوری دنیا میں عام ہے، تو ریاستوں میں اہم عہدوں پر جو شخصیات ہیں وہ اس بات کا خیال رکھتی ہوں گی۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کر رہا ہے۔ انہوں ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میرا خیال ہے کہ پاکستان پہلے ہی اس حوالے سے اقدامات کر رہا ہے۔ حساس علاقوں میں تو آپ موبائل بھی لے کر نہیں جا سکتے اور جو افسران حساس معلومات رکھتے ہوں گے وہ یقیناﹰ پوری احتیاط کرتے ہیں۔ ای میل میل اکاؤنٹ استعمال کرنے کے بجائے، اس طرح کے امور کسی اجلاس میں موضوع بحث بنتے ہوں گے۔‘‘
ڈاکٹر ظفر نواز کے مطابق عموماﹰ سیاسی شخصیات اور اہم عہدے داروں کے دو ای میل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہوتے ہیں۔ ''ان کے نجی اکاؤنٹس کے لئے شاید بہت سخت اقدامات نہ کیے جاتے ہوں لیکن جو ادارہ جاتی اکاؤنٹس ہوتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے بہت سخت اقدامات کیے جاتے ہیں اور ان کی سکیورٹی کو توڑنا یا ہیکنگ کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس حوالے سے سرکاری موقت بیان کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہو سکے۔