1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی قبائلیوں کا مطالبہ، مردم شماری میں الگ مذہب کا خانہ

15 مارچ 2021

بھارتی قبائلی ایک طویل مدت سے اپنی مذہبی شناخت تسلیم کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس معاملے کی تفصیل زینت اختر کے اس بلاگ میں۔

https://p.dw.com/p/3qdvz
Zeenat Akhte
تصویر: privat

بھارت میں 12 کروڑ  سے زائد قبائلی کافی عرصے سے اپنی الگ  مذہبی تشخص منوانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی کے پیش نظر صوبہ جھاڑکھنڈ کی اسمبلی نے متفقہ طور پر باضابط قرارداد پاس کر کے مطالبہ کیا ہے اس سال ہونے والی مردم شماری میں قبائلیوں کا جداگانہ تشخص تسلیم کرکے ان کو ہندو کے بجائے ”سرنا"  مذہب کے پیرو کے طور پر درج کیا جائے۔

ملک کی مختلف عدالتوں میں بھی اس کے لیے اپیلیں داخل کی گئی ہیں۔ جنوبی بھارت میں بھی سات کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل لنگایت فرقہ بھی کافی عرصہ سے ایسا ہی مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔ آزادی سے قبل برطانوی دور حکومت میں ان دونوں فرقوں کی جداگانہ مذہبی حیثیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔

ممبئی میں درجنوں صحافی کورونا وائرس سے متاثر

بھارت: قرض کے لیے راشن کارڈ گروی رکھنے پر مجبور

 

مجھے قبائلیوں کے اس مطالبہ پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ملک میں ہندو قوم پرست طاقتوں کے سیاسی عروج کے بعد جس طرح کے سماجی اور معاشی حالات پیدا ہوئے ہیں، اس میں بیشتر مذہبی فرقے اپنی  مذہبی شناخت کے تئیں فکر مند ہیں۔ بھارت کی موجودہ  ہندو قوم پرست حکومت کی سر پرست سمجھی جانے والی تنظیم آر ایس ایس اور اس کے سربراہ  موہن بھاگوت اکثر و بیشتر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت میں بسنے والے تمام باشندے 'ہندو‘  ہیں۔ ایسے بیانات سے اشتعال پیدا ہونا فطری ہے۔ 

  ویسے قبائلیوں کا یہ کوئی نیا مطالبہ ہے۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جداگانہ مذہبی شناخت کے لیے  تحریکیں چلارہے ہیں۔ مگر میرے نزدیک قابل ذکر بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کسی صوبہ کی حکمراں جماعت اور اس کے وزیراعلیٰ نے یہ معاملہ پُرزور انداز سے اٹھایا ہے۔

جھاڑکھنڈ صوبے کے وزیراعلیٰ اور حکمراں جماعت مکتی مورچہ کے صدر ہیمنت سورین نے اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا،  ’’سرنا" کوڈ قبائلیوں کی مذہبی شناخت کے وجود کے لیے انتہائی اہم ہے اور اس قرارداد کی منظوری سے پورے ملک میں ایک اچھا پیغام  جائے گا۔ انہوں نے ہندو احیاء پرست تنظیموں کانام لیے بغیر کہاکہ قبائلیوں کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ تنظیمیں  قبائلیوں کے 'دھرم پریورتن‘  میں لگی ہوئی ہیں۔

  وزیراعلیٰ سورین نے یہ معاملہ وزیرا عظم نریندر مودی کے ساتھ صوبائی وزرائے اعلیٰ کے اجلاس میں بھی زوردار طریقہ سے اٹھایا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں 18ویں سالانہ انڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ''ادی واسی کبھی ہندو نہیں تھے اور کبھی نہیں رہیں گے۔" اس بارے میں انہوں نے متعدد دلائل پیش کیے تھے کہ وہ فطرت کی پرستش کرتے ہیں، ان کے رسم و رواج اور عقائد بالکل جدا ہیں اور خود کو ہندو تصور نہیں کرتے جبکہ ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں متعدد قبائلی تنظیموں نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں میں پٹیشنیں دائر کر رکھی ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتی ہیں کہ جب  مدھیہ پردیش اور دہلی ہائی کورٹوں نے قبائلیوں کو ہندو قرار نہیں دیا ہے اور اس فیصلہ پر سپریم کورٹ نے بھی مہر لگائی ہے، نیز  قبائلیوں کو جو دستوری مراعات ملی ہیں وہ بھی ہندو دھرم کی بنیاد پر نہیں ملی ہیں تو مردم شماری میں ان کا الگ مذہبی خانہ  بنانے میں حکومت کو پیش و پس سے کام کیوں لے رہی ہے؟

Indien Symbolbild Frauen
تصویر: Parth Sanyal/REUTERS

ان تنظیموں نے گزشتہ سال20 ستمبر کو جھاڑکھنڈ نے اپنے اس مطالبہ کے حق میں قبائلیوں کی ایک طویل انسانی زنجیر بنائی تھی، جس میں ہر ایک گاؤں کے سینکڑوں افراد شامل تھے۔ ان تنظیموں کا یہ بھی الزام ہے کہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں قبائلیوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ آر ایس ایس نے ان قبائلیوں کو ہندو دھرم کے دائرہ میں لانے کے لیے 'ونواسی کلیان آشرم‘ اور 'سیوا بھارتی‘ کے نام سے تنظیمیں قائم کی ہیں۔ وہ  قبائلی علاقوں میں فلاحی وتعلیمی سرگرمیوں میں مصروف عیسائی مشنریوں کو بھی نشانہ بناتی ہیں۔  ان پر قبائلی افراد کو عیسائی بنانے کا الزام عائد کرتی ہیں۔

بھارت کے دستور اور سرکاری رپورٹوں میں بھی کہا گیا ہے کہ آدی واسیوں کی تہذیب، روایات اور رسوم جداگانہ ہیں۔ قبائلی امور کے ماہر یوگو پرتی دعویٰ کرتے ہیں کہ قبائلی آبادی ہندووں اور مسلمانوں کے بعد ملک کی تیسری بڑی مذہبی آبادی ہے۔ جو 150 ملین سے زیادہ ہے۔”1871 سے 1951 تک ان کی علیحدہ مذہبی حیثیت تھی لیکن  ایک سیاسی سازش کے تحت اس حیثیت کو ختم کیا گیا جس کا مقصد انہیں اپنے  مذہب کے طور پر حاصل دستوری اور بنیادی حقوق سے محروم کرنا تھا"۔ برصغیر ہند پر برطانوی دور حکومت میں مردم شماری کے فارم  میں ”قبائلی مذہب" کا خانہ ہوتا تھا اور آزادی کے بعد 1951-52 کی مردم شماری میں اس کو برقرار رکھاگیا مگر 1961-62 کی مردم شماری میں اس کالم کو حذف کر دیا گیا۔

ان قبائلیوں کو عرف عام میں آدی واسی یا اصلی باشندے کہا جاتا ہے، جن کی بود و باش زیادہ تر جنگلاتی علاقوں میں ہے اور ان کے معاش کا انحصار زیادہ تر جنگلاتی وسائل پر ہے اور ان کے علاقے معدنی وسائل سے بھی مالالال ہیں۔ اس لیے یہاں سے  انہیں  بے دخل کرنے کے خلاف کئی علاقوں میں پر تشدد تحریکیں چل رہی ہیں جنہیں ماؤ نواز شورش قرار دیا جاتا ہے۔

 2011کی مردم شماری کے مطابق ملک میں قبائیلوں کی آبادی 12کروڑ ہے جن کا تناسب تقریبا دس فی صد ہے۔ قبائلیوں کی سب سے زیادہ آبادی شمال مشرقی بھارت کے علاوہ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، گجرات، اڈیشا اور دیگر صوبوں میں ہے۔ جھارکھنڈ کی ساڑھے تین کروڑ آبادی میں ایک کروڑ سے زائد قبائلی ہیں۔

گو آر ایس ایس نے اب تک اس مطالبہ پر باضابطہ طور پر کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ لیکن تنظیم کے ایک سینیئر ذمہ دار نے کہا ، ”یہ ہندو سماج کو تقسیم کرنے کی  اور ان کی مجموعی آبادی کو کم کرنے کی  ایک سازش ہے اور اس سازش کے پیچھے عیسائی اور مسلم تنظیمیں ہیں"۔  جب سے  اس مطالبے نے  شدت اخیتار کی ہے۔ ہندو قوم پرست تنظیمیں اس کو دبانے کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں اور وہ میٹنگیں اور جلسے کرکے قبائلی طبقات کو وسیع تر ہندو سماج کا حوالہ دے رہی ہیں کہ وہ ایک چھوٹی اقلیت بن کر کیا کریں گے؟سوشل میڈیا کے ذریعہ قبائلیوں کا یہ پیغامات دیے جارہے ہیں کہ وہ مذہب کے کالم میں دیگر مذاہب کے خانہ میں اپنا نام نہ لکھائیں۔ انہیں رامائن و مہا بھارت کی 'اساطیری‘ کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔ مگر اس کے بر عکس نتائج دیکھنے میں آ رہے ہیں۔

کشمیر کی ہاؤس بوٹس ڈوبنے کے دہانے پر

صوبہ اترپردیش کے ایودھیا میں واقع ساڑھے چار سو سال قدیم تاریخی منہدم بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی خاطر انتہا پسند تنظیم  وشو ہندو پریشد ملک کے مختلف مذہبی مقامات کی مٹی حاصل کر رہی ہے۔ تاہم جھاڑکھنڈ میں جب قبائلیوں کے مذہبی مقام 'سرنا استھل" سے اس مقصد سے مٹی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف قبائلی افراد اور تنظیموں نے سخت  اعتراض اور احتجاج کیا۔

  ادھر جنوبی بھارت میں بھی لنگایت فرقہ ایک طویل عرصہ سے اپنی جداگانہ مذہبی شناخت بحال کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے کہ برطانوی حکومت نے ان کے مذہب کو  ہندو دھرم سے الگ ایک منفرد مذہب تسلیم کیا تھا  لہذا اس کی یہ حیثیت بحال کی جائے۔ صوبہ کرناٹک کی اس وقت کی  کانگریس حکومت نے 2018 ء میں اسمبلی میں ایک قرارد داد منظور کرکے انہیں ایک اقلیتی فرقہ قرار دیا تھا۔

بہرحال  اگر وفاقی حکومت  2021 ء کی مردم شماری میں 'مذاہب کے خانہ  میں 'سرنا کوڈ‘ کو شامل کرنے کی منظوری دیتی ہے تو ایک بڑی آبادی کو ہندو مت، اسلام، عیسائیت، سکھ مت، جین دھرم اور بودھ دھرم ان چھ مذاہب کے علاوہ ایک نیا مذہب چننے کا موقع ملے گا۔ اب تک اگر کوئی فرد ان چھ مذاہب میں سے کسی سے کوئی تعلق ظاہر نہیں کرنا چاہتا ہے تو سر دست اس کے لیے مردم شماری میں ”دیگر مذاہب اور مسلک" (او آر پی) کا کالم موجود ہے۔