تاریخ میں ریاست کا ادارہ مختلف اقوام اور تہذیبوں میں مختلف شکلیں اختیار کرتا رہا ہے۔ تاریخ میں دو قسم کی ریاستیں ہوتیں تھیں۔ ایک وہ ریاست جو اپنی جغرافیائی حدود میں رہتی تھی اور اسی محدود دائرے میں اپنی تہذیب و کلچر پیدا کرتی تھی۔ دوسری وہ ریاست تھی جو فوجی لحاظ سے اور اپنے ملک کے وسائل کی وجہ سے طاقتور ہو جاتی تھی، اور حملہ آور ہو کر دوسری ریاستوں پر قبضہ کرتی تھی اُن کے جمع شدہ مال کو لُوٹتی تھی اور مفتوحہ لوگوں کو غلام بناتی تھی۔
تیسرا خانہ بدوش کا گروہ تھا جن کی کوئی ریاست نہیں ہوتی تھی۔ یہ اپنے رسم و رواج اور قوانین کے تحت مُنظم ہوتے تھے۔ جب یہ قبائل مُتحد ہو جاتے تھے تو تہذیب یافتہ اور مُنظم ریاستوں پر حملے کر کے اُن کو برباد کر دیتے تھے یا دوسری صورت میں اِن ریاستوں میں آباد ہو کر اُن کی تہذیب و تمدن کو اختیار کر لیتے تھے۔
اِس تناظر میں جب ہم اسلامی ریاست اور اُس میں ہونے والی تبدیلی کو دیکھتے ہیں تو ریاستوں کی جنگ و جدل اور اُن کی تہذیبوں کا باہمی ربط و ضبط نظر آتا ہے۔ مثلاً امیہ خاندان نے جب اقدار حاصل کیا تو ریاست کا کردار عربی شناخت پر تھا۔ جس کو ابنِ خلدون نے (Asabia) کا نام دیا۔ اگرچہ اس دور میں بڑی تعداد میں ایرانی مسلمان ہو گئے تھے مگر اُن کا عرب معاشرے میں مساوی مقام نہیں تھا۔ اس لیے جب عباسی انقلاب آیا تو اِس کو لانے والے ایرانی تھے اور عباسی خلافت میں اِنقلاب کی وجہ سے ایرانی اور عربوں کا درجہ مساوی ہو گیا۔
ایرانیوں کو عربوں پر یہ فوقیت تھی کہ اُنہیں ساسانی عہد کی روایات کا عِلم تھا۔ وہ ریاست کے انتظامات اور اُس کے مختلف شعبوں کی کارروائیوں سے واقف تھے۔ اس لیے عباسی دربار میں بیورو کریسی پر اُن کا تسلط ہو گیا۔ اس کے بعد ایرانی عہدیداروں نے دربار میں ساسانی رسومات کو روشناس کرایا اور خلیفہ کو ساسانی شہنشاہ بنا دیا۔ (ساسانی سلطنت چوتھی ایرانی اور دوسری فارسی سلطنت تھی جو 226ء سے 651ء تک قائم رہی)۔ ایران کے تہواروں کا احیاء ہوا جس میں خاص طور سے نو روز کا تہوار تھا، جو موسم بہار میں منایا جاتا تھا۔ اس موقع پر تقریبات کا سلسلہ ہوتا تھا موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں۔ شاعروں کی شعرخوانی ہوتی تھی، محفلیں ہوتی تھی اور قصہ گو ایران کے پرانے قصے کہانیاں سُنایا کرتے تھے۔
عباسی دور کی اہم خصوصیات یہ تھیں کہ خلیفہ المنصور نے دارُالخلافہ کو دَمشق سے بغداد مُنتقل کر دیا جسے دجلہ اور فرات کے کنارے آباد کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے خلافت پر ایرانیوں کا مزید تسلط ہوا۔ علماء اگرچہ ایرانیوں کے خلاف تھے مگر اُن کا دائرہ کار مذہب تک محدود رہا اور سیاست میں اُنہیں مداخلت نہیں کرنے دی۔
عباسی سلطنت میں اُس وقت بھی تبدیلی آئی جب عرب ایران میں آ کر آباد ہو گئے۔ یہاں شادی بیاہ کے اس ملاپ کے نتیجے میں ایک نیا کلچر وجود میں آیا۔ اب عباسی دربار میں شاعروں اور قصہ گووں کی سرپرستی ہونے لگی۔ ایران کے مشہور خاندان بَرمق میں جو پہلے بدھ مت تھے اور بعد میں مسلمان ہو گئے تھے، اِنہوں نے عباسی دربار میں ایرانی کلچر کو مقبول بنایا۔
عباسی ریاست نے مختلف ملکوں پر حملے کر کے فتوحات حاصل کیں اور وہاں سے جو مالِ غنیمت ملا وہ حکمراں طبقے میں تقسیم ہوا، جس کی وجہ سے ان کی زندگی عیاشیانہ ہو گئی۔ ریاست کے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر مختلف قسم کے ٹیکس لگائے گئے۔ ٹیکسوں کی یہ رقم خلیفہ کی شان و شوکت پر صرف کی گئی۔
لیکن کوئی ریاست بھی اُس وقت تک سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوتی ہے جب تک اُس کی آمدنی کے اپنے ذرائع نہ ہوں۔ مالِ غنیمت اور لُوٹ مار کی دولت سے ریاست کے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے نہیں ہوئے ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا اُصول ہے کہ جب حکمراں اور حکمراں طبقے بغیر محنت کے سرمایہ اکٹھا کر لیتے ہیں، تو اُن کے کردار میں اخلاقی قدریں باقی نہیں رہتیں ہیں اور وہ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا جب اُمراء کی سازشیں ہوں تو اپنے حریفوں کو مراعات سے محروم کر دیا جاتا ہے یا اُن کی جائیدادوں کو ضبط کر لیا جاتا ہے اور اختلافات اس قدر بڑھتے ہیں کہ ریاست کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں رہتا۔
جب عباسی ریاست میں یہ صورتحال پیدا ہوئی تو اِس کا حل یہ نکالا گیا کہ وسطِ ایشیا سے تُرک غلاموں کو لا کر خلیفہ نے اُنہیں اپنا محافظ بنایا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ خلیفہ کو اپنے اُمراء پر اعتماد نہیں تھا۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب ایک گروہ طاقتور ہو جاتا ہے تو وہ ریاست کے اداروں پر قبضہ کر کے سیاسی تسلط قائم کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات وہ نئے خلیفہ کا تقرر بھی اپنی مرضی سے کرتا ہے۔
نویں صدی عیسوی میں عباسی سلطنت زوال کا شکار ہونا شروع ہوئی اور خلیفہ نئی سیاسی طاقت کے ہاتھوں کٹھ پُتلی ہو کر رہ گیا۔ پہلے آلِ بودیہ آئے اور عباسی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ پھر سلجوق آئے اور حکومت پر قابض ہوئے۔ ترک غلام جو مملوک کہلاتے تھے اِنہوں نے مِصر میں اپنی حکومت قائم کر لی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی ریاست یا خلافت اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ وسطِ ایشیا میں ترک خاندانوں کی حکومت آئی۔ ہندوستان میں بھی تُرک سلاطین حکمراں ہوئے۔ شمالی افریقہ میں کئی آزاد مسلمان ریاستیں تشکیل ہوئیں۔ اَندلس بھی کئی چھوٹی مسلمان ریاستوں میں بٹ گیا۔ ریاستوں کی اس تقسیم نے خلیفہ کی حیثیت برائے نام کر دی۔ اُس کا نام تو خطبے میں آ جاتا تھا مگر اُس کی سیاسی حیثیت برائے نام تھی۔
1258ء میں ہلاکو خاں نے مُغل حکومت کا خاتمہ کیا۔ اُس کے بعد سے عالمِ اسلام کئی ریاستوں میں بٹ گیا جن پر شاہی خاندان حکمراں تھے۔ اب یہ حملہ آور ہونے کے قابل تو نہ تھے۔ اس لیے یورپی اقوام نے اِنہیں اپنی کالونیز بنایا اور جو مالِ غنیمت اُنہوں نے اب تک جمع کیا تھا اُسے یورپی لُوٹ کر لے گئے۔ اب اسلامی ریاست نہ جمہوری ہے نہ شہنشاہی اور نہ آمرانہ۔ اِن ریاستوں کے عوام غربت اور مُفلسی کا شکار ہیں اور اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔