تہران حکومتی ذرائع نے بھی فخری زادہ کے قتل کی تصدیق کر دی ہے۔ قبل ازیں ایرانی میڈیا نے بتایا تھا کہ جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ 'دہشت گردوں‘ کے حملے میں زخمی ہو گئے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ دارالحکومت تہران کے نواح میں پیش آیا۔ مسلح حملہ آوروں نے پہلے ایک گاڑی کو دھماکے سے اڑایا اور اس کے بعد انہوں نے فخری زادہ اور ان کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ کرنے والے افراد کو ہلاک کر دیا گیا لیکن اس دوران فخری زادہ بھی شدید زخمی ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیے: ’ٹرمپ گزشتہ ہفتے ایران پر حملہ کرنا چاہتے تھے‘
محسن فخری زادہ کے زخمی ہونے کی خبروں کے بعد ایرانی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا، ''بدقسمتی سے میڈیکل ٹیم انہیں بچانے میں ناکام رہی اور چند منٹ قبل کئی برسوں سے محنت اور کاوشیں کرنے والے مینیجر اور سائنس دان (محسن فخری زادہ) شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔‘‘
’حملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے اشارے‘
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے اپنے پیغام میں لکھا، ''دہشت گردوں نے اہم ایرانی سائنس دان کو قتل کر دیا۔ یہ بزدلانہ اقدام، جس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے سنجیدہ اشارے موجود ہیں، حملہ آوروں کے شدید جنگی جنون کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘
اسرائیل، مغربی ممالک اور امریکی خفیہ اداروں کے مطابق محسن فخری زادہ ایران کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے سرگرم خفیہ پروگرام کے سربراہ بھی تھے۔ اقوام متحدہ کے نیوکلیئر واچ ڈاگ کے مطابق یہ منظم خفیہ پروگرام سن 2003 میں ختم کر دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ایرانی جوہری تنصیب پر ’پر اسرار حملہ‘ اسرائیل نے کیا؟
تاہم ایرانی حکام اور خود محسن فخری زادہ بھی ایسے الزامات کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے فوری طور پر اس واقعے پر ردِعمل ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔ نیتن یاہو نے برسوں پہلے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایرانی ایٹمی منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے محسن فخری زادہ کا نام لیتے ہوئے کہا تھا، ''اس نام کو یاد رکھیے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کے اقتدار کے آخری دنوں کے دوران فخری زادہ کے قتل کے بعد ایران اور امریکا کے مابین کشیدگی میں اضافے کا خدشہ بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔
ش ح/ ا ا (ڈی پی اے، روئٹرز)
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
-
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔
مصنف: امتیاز احمد