1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ایرانی جوہری تنصیب کو اسرائیل نے نشانہ بنایا؟

شمشیر حیدر with AFP
12 جولائی 2020

تہران سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر نطنز میں قائم ایرانی جوہری مرکز میں دو جولائی کو پیش آنے والے ایک پراسرار واقعے میں یہ تنصیب بری طرح سے متاثر ہوئی تھی۔ یہ محض حادثہ تھا یا اسرائیلی منظم حملہ؟

https://p.dw.com/p/3fBjL
Iran I Atomkraft I Atomanlage Natanz
تصویر: picture-alliance/dpa/Digital Globe

گزشتہ ہفتے کے دوران ایران میں عسکری تنصیبات کے قریب دھماکے ہوئے۔ جوہری تنصیب کے علاوہ تہران میں ایک فیکٹری، طبی سہولت کے مرکز اور تہران کے مغرب میں پارچین کے مقام پر میزائلوں کی ایک ایرانی تنصیب جیسے مقامات دھماکوں سے متاثر ہوئے۔

ایرانی حکام نے ان واقعات کو حادثہ قرار دیا لیکن کئی ایرانیوں کا خیال ہے کہ یہ واقعات کسی اسرائیلی خفیہ حملے کا نتیجہ تھے۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز سمیت کئی میڈیا اداروں نے بھی بعد ازاں خاص طور پر نطنز واقعے کو اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی منظم کارروائی کا نتیجہ قرار دیا۔

نطنز جوہری مرکز کیوں اہم ہے؟

دو جولائی کو نطنز جوہری تنصیب پر پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بھی تہران حکومت نے ابتدا میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ایرانی اٹامک انرجی ایجنسی نے ابتدا میں کہا کہ نطنز میں ایک 'حادثے‘ کے نتیجے میں زیر تعمیر ویئر ہاؤس کو نقصان پہنچا۔ ادارے نے ایک منزلہ عمارت کے کچھ بیرونی حصوں کی تصاویر بھی جاری کی تھیں۔ یہ کمپلیکس زیادہ تر زیر زمین ہے۔ زمین کے اوپر دکھائی دینے والی عمارت میں کھڑکیاں اور دروازے تباہ ہو کر باہر کی جانب کھلے ہوئے تھے اور آگ کے نشانات بھی دیکھے گئے تھے۔

Iran I Atomkraft I Brand I Atomanlage Natanz
زیر زمین مرکز کے اوپری حصے میں بھی تباہی کے نشانات دکھائی دیےتصویر: picture-alliance/Tampa Bay Times

نطنز جوہری مرکز ایران کے ایٹمی پروگرام میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی سکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی ہے۔ تہران حکومت کے مطابق اس مرکز کو جدید 'سینٹری فیوجز‘ تیار کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ حکام نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اس واقعے سے قبل جدید سینٹی فیوج تیار کرنے کا عمل جاری تھا۔

یہ بھی پڑھیے: ایران: آگ لگنے سے نطنز جوہری تنصیب کو زبردست نقصان

ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین سن 2015 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ایران نے یورنیم کی افزودگی محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے علاوہ 'فرسٹ جنریشن‘ سینٹی فیوجز کی تعداد بھی کم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

اسی معاہدے کے تحت انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ماہرین کو بھی اس مرکز کا دورہ کرنے اور جائزہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔

'پراسرار حملہ‘ - ہوا کیا تھا؟

واقعے کے بعد ایرانی اٹامک انرجی ایجنسی نے 'حادثے‘ کی تصدیق کی۔ اس کے بعد سرکاری نیوز ایجنسی نے بھی کہا کہ نطنز میں 'نمایاں مالی نقصان‘ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ واقعے کے مقام پر کوئی تابکار مواد نہیں تھا اس لیے خطرے کی بھی کوئی بات نہیں۔

اگلے ہی روز ایرانی سپریم نیشنل کونسل نے بتایا کہ 'حادثے کی وجہ کی بالکل درست نشاندہی‘ کر لی گئی ہے تاہم سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دے کر مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا گیا۔

ایرانی میڈیا میں تو اس واقعے کی تفصیلات ظاہر کرنے سے گریز کیا گیا۔ لیکن پے در پے ہونے والے واقعات کے باعث لوگوں میں افواہیں گردش کرنے لگیں۔

'قاسم سلیمانی کے قتل جیسا حملہ‘

ایرانی حکام نے اس حملے کی نہ تو زیادہ تفصیلات بتائیں اور نہ ہی اس حملے کا الزام کسی پر عائد کیا۔ تاہم ایک ہفتے کے اندر اندر ایران کی طاقتور مذہبی قیادت کے قریب سمجھے جانے والے میڈیا نے اسرائیل اور امریکا پر حملہ کرنے کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے نتائج سے متنبہ کرنا شروع کر دیا۔

ایرانی ویب سائٹ ھمشری آن لائن نے لکھا کہ حملے کے لیے جگہ اور وقت کا تعین ایسے کیا گیا کہ جانی نقصان بھی نہ ہو اور تابکاری بھی نہ پھیلے۔ ھمشری نے اس واقعے کو 'جنرل سلیمانی کے قتل جیسا حملہ‘ قرار دیا۔

Iran I Atomkraft I Brand I Atomanlage Natanz
ایرانی اٹامک انرجی آرگنائزیشن نے زیر زمین نطنز یورینیم افزودگی مرکز کی تصاویر جاری کیںتصویر: picture-alliance/AP

ایرانی سپریم کونسل کے قریب سمجھے جانے والے میڈیا نے لکھا کہ اسرائیل نے یہ حملہ امریکی اجازت حاصل کرنے کے بعد ہی کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی فارسی سروس نے بھی اپنی رپورٹ میں حملے کی خبر آنے سے پہلے ہی بتایا تھا کہ 'یوزپلنگان وطن‘ نامی ایک باغی گروہ نے انہیں نطنز میں حملے کی اطلاع دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ اس تنظیم نے دعویٰ کیا کہ ایرانی سکیورٹی اداروں میں ان کے لوگ موجود ہیں اور انہی کے تعاون سے نطنز ایٹمی مرکز کے اندر جا کر دھماکا خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔

'طویل منصوبہ بندی، سوچ سے بڑا حملہ‘

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے جمعہ دس جولائی کو اپنے ایک مفصل مضمون میں اس حملے کو اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیا۔

اخبار کے مطابق اسرائیل اور امریکا کی اس حکمت عملی میں ایران کے ساتھ براہ راست جنگ سے گریز کرتے ہوئے خفیہ حملوں کا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پوچھے جانے پر بھی نطنز واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا حالاں کہ وہ ایران کے خلاف بات کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

علاوہ ازیں مائیک پومپیو کے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ڈائریکٹر یوسی کوہن کے ساتھ قریبی مراسم ہیں۔ کوہن ہی کی قیادت میں ایک دہائی قبل نطنز میں اسرائیل خفیہ ادارے موساد نے سائبر حملے کے ذریعے قریب ایک ہزار سینٹی فیوجز تباہ کر دیے تھے۔ سن 2018 میں موساد ہی کے ایک آپریشن کے دوران ایران سے جوہری ہتھیاروں کے منصوبے سے متعلق دستاویزات حاصل کر لی گئی تھیں۔

ایران کی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت ختم کرنے یا سست کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے خفیہ آپریشنز میں ایک پہلو یہ بھی سامنے رکھا گیا کہ ایرانیوں کو آپس میں بھی لڑایا جائے۔

یہ بھی پڑھیے: ’جوہری طاقتیں اپنے ہتھیاروں کی جدید کاری میں مصروف ہیں‘

کوہن کی مدت ملازمت ختم ہونے والی تھی لیکن نطنز حملے کے ساتھ ہی ملازمت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی۔

اس رپورٹ میں ماہرین نے تاہم خبردار بھی کیا جنرل قاسم سلیمانی کی طرح انقلابی گارڈز کے دیگر اہم افسران اور ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کے مختصر مدتی فوائد تو ہوں گے لیکن طویل مدتی نقصان یہ بھی ہو گا کہ ایران آئندہ اپنے جوہری ارادے مزید خفیہ طور پر پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔