1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات

6 دسمبر 2010

ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان جینوا میں دو روزہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں ۔اس ملاقات میں ایران کے جوہری توانائی کے متنازعہ پروگرام سے متعلق امور پر بات چیت کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/QQnu
تصویر: AP

ایرانی وفد کی قیادت ایرانی جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی کر رہے ہیں جبکہ امریکہ، چین ، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ کے وفد کی قیادت امور یورپی یونین کی خارجہ امور کی مندوبِ اعلیٰ کیتھرین ایشٹن کر رہی ہیں۔ گو کہ بین الاقوامی طاقتیں اس ملاقات میں کسی بڑی پیش رفت کی امید نہیں کر رہیں تاہم وہ اس اہم معاملے پر سرے سے مذاکرات کے ہونے کو ہی امید افزاء قرار دے رہی ہیں۔

NO FLASH Iran-Nuklear Gespräche in Genf
اقوام متحدہ کی جانب سے چوتھی بار پابندیاں عائد کئے جانے کے بعد سے ایران پر جوہری پروگرام پر مذاکرات کرنے کے لئے دباؤ تھاتصویر: AP

ادھر مذاکرات کے آغاز سے چند گھنٹے قبل اتوار کے روز سرکردہ ایرانی مذاکرات کار کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں ایران جوہری توانائی کے حصول کے حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ اب وہ فیول راڈز کی تیاری کے لئے ضروری مادہ ایران کی اپنی سرزمین سے حاصل کر رہا ہے۔ جوہری توانائی کی ایرانی تنظیم (AEOI) کے سربراہ علی اکبر صالحی کا کہنا ہے،’’یہ یورینیم جنوبی ایران کی ایک کان سے لیا گیا ہے اور اِسے افزودگی کے لئے اصفہان کے جوہری مرکز میں بھیجا گیا ہے۔ اِس طرح اب ہم باقی ملکوں کے محتاج نہیں رہیں گے۔‘‘

Bushehr Reaktor Tehran Iran
ایران کا متنازعہ جوہر ی ری ایکڑرتصویر: AP

دوسری جانب بین الاقوامی طاقتیں چاہتی ہیں کہ ایران یورینیم افزودہ کرنے کی کوششیں ترک کر دے۔ مغربی وفد کے حکام کے مطابق اس ملاقات میں دنیا کی یہ چھ بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ ایران اپنے جوہری توانائی کے منصوبے پر کئے جانے والے سوالات کا جواب دے۔ ایران البتہ اِس بات پر مصر ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے لئے ایٹمی توانائی سے استفادہ کرتا رہے گا۔ ایرانی مذاکرات کار سعید جلیلی کا کہنا تھا،’’ماضی میں ہونے والے مذاکرات کی طرح اِس بار بھی ہم اِس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ ایران سے اُس کے حقوق چھین لئے جائیں۔ جنیوا میں بھی ہمارا موقف وہی ہو گا، جو گزشتہ مذاکرات میں رہا ہے۔‘‘

مغربی حکام کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ایران کے پاس اب صرف دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ بین الاقوامی سطح پر مزید تنہا ہو جائے یا پھر تعاون کرے۔ مذاکرات کا ماحول دوستانہ ہے تاہم جیسے کہ مذاکرات میں شریک ایک عہدیدار نے بات چیت شروع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’ان مذاکرات سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا رہیں‘۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ / خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید