امریکی صدارتی الیکشن: ڈونلڈ ٹرمپ نے کملا ہیرس کو ہرا دیا
6 نومبر 2024پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کل منگل کے دن عوامی رائے دہی مکمل ہونے کے بعد جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، تو ابتدا میں تو ٹرمپ اور ہیرس کے مابین سخت مقابلہ جاری رہا۔ پھر فیصلہ کن سمجھی جانے والی 'سوِنگ اسٹیٹس‘ میں سے زیادہ تر میں ٹرمپ کو کامیابی ملنا شروع ہو گئی، جو بتدریج بڑھتی ہی گئی۔
عالمی وقت کے مطابق آج بدھ چھ نومبر کی سہ پہر تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق کسی بھی صدارتی امیدوار کو اپنی کامیابی کے لیے الیکٹورل کالج کے کم از کم 270 ارکان کی تائید درکار تھی اور تب تک ڈونلڈ ٹرمپ 279 ووٹ حاصل کر چکے تھے۔
اس کے برعکس ان کی ڈیموکریٹ حریف امیدوار اور موجودہ خاتون نائب صدر کملا ہیرس کو تب تک 223 الیکٹورل ووٹ حاصل ہوئے تھے۔
یہ صورت حال واضح ہونے سے چند گھنٹے پہلے، جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی اپنی فتح کے لیے ناگزیر ووٹوں کی تعداد کا ہدف پار نہیں کیا تھا لیکن وہ اس کے بہت قریب پہنچ چکے تھے، سابق ریپبلکن صدر نے اپنے حامیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
اپنے اس خطاب میں ٹرمپ نے پام بیچ میں ریپبلکن سیاسی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک ایسی فتح حاصل کی ہے، ''جو امریکہ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔‘‘
ٹرمپ کی فتح کا تاریخی پہلو
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آج کی انتخابی کامیابی کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ وہ امریکی صدارتی تاریخ میں 1892ء میں گروور کلیولینڈ کے بعد ایسے پہلے سابق صدر ہیں، جو دوبارہ منتخب تو ہو گئے لیکن مسلسل دوسری مرتبہ نہیں، بلکہ ان کے صدارتی عہدے کی دونوں مدتوں میں وقفہ بھی آیا۔
اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک سیاست دان کے طور پر ایسے پہلے سزا یافتہ مجرم بھی ہیں، جنہیں امریکہ میں اعلیٰ ترین منتخب عوامی عہدے کے لیے چنا گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی فتح واضح ہوتے جانے کے ساتھ ہی دنیا بھر سے سربراہان مملکت و حکومت نے انہیں مبارک باد کے پیغامات بھی بھیجنا شروع کر دیے۔
ان رہنماؤں میں جرمنی کے صدر شٹائن مائر، جرمن چانسلر اولاف شولس، برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں، یورپی یونین کے کمیشن کی صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین، یوکرین کے صدر زیلنسکی، بھارت کے وزیر اعظم مودی اور کئی دیگر ممالک کے رہنما بھی شامل ہیں۔
داخلی سیاسی سطح پر موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی نائب اور ٹرمپ کی حریف امیدوار کملا ہیرس نے آخری خبریں آنے تک ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہو جانے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
امریکی صدر کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟
امریکی کانگریس میں طاقت کا توازن
کل پانچ نومبر کو امریکہ میں صرف صدارتی انتخابات ہی نہیں ہوئے تھے بلکہ امریکی کانگریس کے الیکشن بھی ہوئے، جن کے نتیجے میں کانگریس کے ایوان بالا یا سینیٹ میں اب طاقت کا توازن بھی بدل گیا ہے۔
بھارت میں ایک چھوٹا سا گاؤں کملا ہیرس کی جیت کی دعائیں کیوں کر رہا ہے؟
اب تک امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹ ارکان کو اکثریت حاصل تھی، لیکن منگل کے دن امریکی ریاستوں اوہائیو اور ورجینیا سے منتخب ہونے والے نئے سینیٹرز کی وجہ سے اب سینیٹ کا کنٹرول بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے بجائے ریپبلکن پارتی کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لیے نائب صدارتی امیدوار کے طور پر جے ڈی وینس کا انتخاب کیا تھا، جو اب امریکہ کے نومنتخب نائب صدر ہیں۔ کئی سیاسی ماہرین کی رائے میں نو منتخب نائب صدر وینس ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے جانشین ثابت ہو سکتے ہیں اور کافی زیادہ امکان ہے کہ 2028ء کے اگلے امریکی صدارتی الیکشن میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جے ڈی وینس ہی ہوں، جن کی عمر اس وقت 40 برس ہے۔
امریکہ کے سینتالیسویں صدر
ڈونلڈ ٹرمپ کو کل کے الیکشن کے آج واضح ہونے والے نتائج میں جو کامیابی ملی ہے، اس کے بل پر ٹرمپ اب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 47 ویں صدر ہوں گے۔
امریکی انتخابات: ہیرس کا غزہ جنگ ختم کرانے اور ٹرمپ کا سنہری دور کا وعدہ
انہیں اپنی حریف کملا ہیرس کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ عوامی تائید حاصل ہوئی، تاہم جس ایک ریاست کے انتخابی نتائج نے انہیں اپنی فتح کے لیے درکار سنگ میل پار کرنے میں مدد دی، وہ ریاست وسکونسن تھی۔ اس ریاست کے انتخابی نتائج کے ساتھ ہی یقینی ہو گیا تھا کہ ٹرمپ کو 270 الیکٹورل ووٹ مل گئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی اسی انتخابی کامیابی کا ایک اور تاریخی پہلو یہ بھی ہے کہ اس وقت ٹرمپ کی عمر 78 برس ہے اور وہ امریکی تاریخ میں صدر منتخب کیے جانے والے سب سے عمر رسیدہ سیاست دان بھی بن گئے ہیں۔
م م / ر ب (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)