1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین ملازمین کو 'ہراساں کرنے' کے خلاف اقوام متحدہ کی تنبیہ

13 ستمبر 2022

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طالبان حکام نے اس کے عملے کی تین افغان خواتین کو حراست میں لے لیا۔ ادارے نے حکام سے کہا ہے کہ وہ خواتین کا احترام کریں۔ تاہم طالبان نے حراست میں لینے کی تردید کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4GlBM
Afghanistan | Frauenrechte | Proteste in Afghanistan
تصویر: Wakil Kohsar/AFP

اقوام متحدہ نے 12 ستمبر پیر کے روز افغانستان میں ''اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین کو ہراساں کرنے کے طور طریقوں '' پر خبردار کیا۔ عالمی ادارے' کے اے ایم اے مشن' کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اس کی تین افغان خواتین ملازمین کو مقامی مسلح سیکورٹی ایجنٹوں نے حراست میں لیا تھا اور ان سے پوچھ گچھ بھی کی۔

اس پر طالبان نے پیر کی شام کو اپنا ایک بیان جاری کیا، جس میں خواتین کو حراست میں لیے جانے کی تردید کی گئی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ مقامی حکام نے جنوبی صوبہ قندھار میں خواتین کے ایک گروپ کو روکا تھا، لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اقوام متحدہ کے لیے کام کر رہی ہیں تو انہیں جانے دیا گیا۔

اقوام متحدہ نے طالبان سے یہ بھی کہا کہ وہ اس کے افغان خواتین عملے کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے ڈرانے دھمکانے کے حربے بند کریں اور مقامی حکام کو بین الاقوامی قانون کے تحت ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں یاد دلایا کہ وہ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

افغانستان: طالبان اقتدار کا ہنگامہ خیز ایک برس

خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش

طالبان کی جانب سے اسلامی قانون کی سخت تشریح کا مطلب یہ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو اسکول جانے یا کام کرنے جیسے بنیادی حقوق کے استعمال میں انہیں سختی سے محدود کر دیا جائے۔

گزشتہ برس اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول بند کر دیے تھے۔ حال ہی میں صوبہ پکتیا کے حکام نے قبائیلی عمائدین کی سفارش کے بعد چھٹی جماعت کے اوپر کے اسکولوں کھولنے کا حکم دیا تھا، تاہم چند روز چلنے کے بعد ہی ان اسکولوں کو بھی بند کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

Afghanistan Kabul | Straßenszene
 اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تقریباً 30 لاکھ افغان لڑکیاں ثانوی تعلیم مکمل کرنے سے قاصر ہیںتصویر: WAKIL KOHSAR/AFP/Getty Images

 اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تقریباً 30 لاکھ افغان لڑکیاں ثانوی تعلیم مکمل کرنے سے قاصر ہیں۔

افغان خواتین کا اقوام متحدہ سے کارروائی کا مطالبہ

دریں اثنا افغان خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں بتایا کہ انہیں ملک میں عملی طور پر کسی بھی طرح کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ جنیوا میں یہ اجلاس پیر کے روز منعقد ہوا۔

خواتین کے حقوق کی کارکن محبوبہ سراج نے اقوام متحدہ کے سفارت کاروں کو بتایا کہ ''آج افغانستان میں انسانی حقوق کا کوئی وجود نہیں ہے۔'' انہوں نے مزید کہا، ''اس ملک کی خواتین، ارے، ہمارا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے... ہم مٹ چکے ہیں۔''

ایک افغان وکیل رضیہ صیاد کا کہنا تھا، ''افغانستان کی خواتین کو اب ایک ایسے گروہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو فطری طور پر خواتین مخالف ہے اور وہ خواتین کو انسان تک تسلیم نہیں کرتا۔''

طالبان حکومت میں عورتوں کے ساتھ مار پیٹ اور زیادتی کا سلسلہ جاری، رپورٹ

افغان خواتین نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات کے لیے ایک نظام تشکیل دے۔

انسانی حقوق کے ماہر اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے مزید کہا کہ اپنے نئے حکمرانوں کے تحت افغانستان اب ''آمریت کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔''

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

افغان خواتین کے لیے برقعہ اور نقاب، دونوں لازمی