1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

طالبان کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا، یورپی یونین

16 اگست 2022

یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل کا کہنا ہے کہ طالبان کے افغانستان میں دوبارہ اقتدار پر کنٹرول کرنے کے ایک برس بعد انسانی صورت حال بالخصوص خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کی حالت ابتر ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4FZxk
Frankreich Straßburg | Europäisches Parlament | Josep Borrell
یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریلتصویر: Alexey Vitvitsky/Sputnik/picture alliance

افغانستان میں دوبارہ اقتدار پر کنٹرول کے ایک برس مکمل ہونے کے موقع پر پیر کے روز یورپی یونین نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کریں اور بالخصوص خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کے حقوق کو بحال کریں۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان سے انتہائی جلد بازی میں انخلاء کے بعد سے گزشتہ 12 ماہ کے دوران سکیورٹی کی صورت حال میں نسبتاً بہتری کا بعض افغان شہریوں نے خیر مقدم کیا ہے تاہم جنگ سے تباہ حال ملک غربت، خشک سالی، قلت تغذیہ جیسے مسائل کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے مستقبل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے حوالے سے خواتین کی امیدیں بھی دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔

افغانستان بہر حال اس وقت سے کہیں زیادہ محفوظ ہے جب سخت گیر طالبان امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج اور ان کے افغان اتحادیوں کے ساتھ جنگ کر رہے تھے۔ لیکن آج ملک کی معیشت شدید دباو کا شکار ہے۔ غیر ملکی حکومتوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے جس کی وجہ سے ملک بڑی حد تک الگ تھلگ پڑ گیا ہے۔

 افغانستان بڑی حد تک غیرملکی ترقیاتی امداد پرمنحصر تھا لیکن بین الاقوامی برادری نے امداد روک دی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ طالبان کو پہلے افغانوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرنا ہوگا اور بالخصوص لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم اور ملازمت تک آزادانہ رسائی دینی ہوگی۔

Afghanistan Kandahar | Eine Frau mit Hijab
تصویر: Javed Tanveer/AFP

یورپی یونین کا الزام

یورپی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا، "افغانستان پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے ایک برس بعد انسانی حقوق کی صورت حال مزید ابتر ہوگئی ہے جبکہ انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں۔ بالخصوص خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔"

جوسیپ بوریل نے مزید کہا،"میں کابل پر عملا ً حکومت کرنے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے ان ناقابل قبول فیصلوں اور رویوں کو تبدیل کریں۔"

ایک عام اندازے کے مطابق ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ تقریباً ڈھائی کروڑ افغان اس وقت غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق معیشت کی ابتر حالت کی وجہ سے رواں برس نو لاکھ افراد کی ملازمتیں ختم ہوسکتی ہیں۔

سول سوسائٹی اور آزاد میڈیا کی سرگرمیاں بھی محدود ہوگئی ہیں کیونکہ ان کے بیشتر اراکین ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان نے صحافیوں، کارکنوں اور مظاہرین کو گرفتار کرکے ان کی سرگرمیوں کو محدود  کر دیا ہے۔

ج ا / ص ز (روئٹرز،اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید