1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسٹاک ہولم کا انسانی حقوق ایوارڈ 2020ء حنا جیلانی کے نام

8 اکتوبر 2020

پاکستان کی ممتاز ایڈووکیٹ اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم حنا جیلانی کو اسٹاک ہولم میں امسالہ ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3jdhd
Hina Jilani, ehemalige UN-Sonderbeauftragte für die Lage von Menschenrechtlern
تصویر: Getty Images for 100 Lives/A. Rentz

پاکستان میں جمہوریت کی حامی اور شہری و انسانی حقوق کے لیے سرگرم حنا جیلانی نے اسٹاک ہولم میں امسالہ ہیومن رائٹس انعام حاصل کرنے پر مُسرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا،''مجھے اس موقع پر سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ مجھے میری اپنی برادری یعنی قانون سازوں اور قانون دانوں نے اس اعزاز کے قابل سمجھا۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے جب حنا جیلانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور پوچھا کہ اس اعزاز کے حصول پر وہ کیسا محسوس کر رہی ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا،''میں سمجھتی ہوں کہ یہ صرف میرے لیے نہیں بلکہ پاکستان کی ہیومن رائٹس کے لیے آواز بلند کرنے والی پوری برادری کے لیے اعزاز و مسرت کی بات ہے۔ کیونکہ میں اس کا حصہ ہوں۔‘‘

حنا جیلانی نے مزید کہا،''میں چاہے ملک کے اندر رہوں یا ملک سے باہر میرا میری برادری سے بہت گہرا رشتہ ہے اور میں ہمیشہ اس کا حصہ رہوں گی اور اپنے اس مقصد کے لیے ہر جگہ سے اور ہر وقت کام کرتی رہوں گی۔‘‘ انسانی حقوق کا یہ ایوارڈ اسٹاک ہولم میں قائم سویڈش بار ایسوسی ایشن، انٹر نیشنل بار ایسوسی ایشن آئی بی اے اور انٹرنیشنل لیگل ایسوسی ایشن کُنسورشیم آئی ایل اے سی کی معاونت سے اوران کی جانب سے مشترکہ طور پر دیا جاتا ہے۔

حنا جیلانی گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے اور اس برادری کے ساتھ وابستہ ہیں۔ حنا جیلانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ معاشرے میں ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والی ایک ایسی سرگرم خاتون ہیں، جنہوں نے کسی سیاسی یا دیگر مشکلات کے سامنے کبھی ہار نہیں مانی۔

انہیں معاشرے کے استحصال کے شکار طبقات کے حقوق کے لیے کوشش کرنے والوں کے لیے ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔ وہ انسانی حقوق سے متعلق قوانین کے شعبے میں بھی ایک عالمی شہرت رکھتی ہیں اور ان کی قابلیت اور ان کی خدمات کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

Hina Jilani, Lahore,  Aurat March, Pakistan,
حنا جیلانی تین عشروں سے پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے انتھک جدوجہد کر رہی ہیں۔ تصویر: Qurat Mirza

1987ء میں اپنی بڑی بہن مرحومہ عاصمہ جہانگیر اور چند دیگر ترقی پسند وکلاء کے ساتھ مل کر  انہوں نے پاکستانی خواتین کو قانونی معاونت فراہم کرنے والی پہلی 'خواتین لاء کمپنی‘ اے جی ایچ ایس قائم کی تھی، جیسے ایک تاریخ ساز اقدام قرار دیا جاتا ہے اور یہ عالمی سطح پر بھی ان کی خدمات کو تسلیم کیے جانے کی ایک وجہ ہے۔ اسی سال یعنی 1987ء میں ہی انہوں نے 'ویمن ایکشن فورم‘ ڈبیلو اے ایف قائم کیا۔ اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں اور امتیازی قوانین کو چیلنج کرنا تھا۔

1986ء میں حنا جیلانی نے پاکستان کا پہلا لیگل ایڈ سینٹر قائم کیا۔ اُسی سال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان قائم ہوا، جس کے  بانی اراکین میں وہ بھی شامل تھیں۔ 1990ء میں حنا جیلانی نے 'دستک‘ نامی ایک پناہ گاہ کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا مقصد صنفی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو مفت قانونی مشورے اور مدد فراہم کرنا تھا نیز ایسی خواتین کو یہاں پناہ بھی فراہم کی جاتی تھی۔

حنا جیلانی کو امسالہ ہیومن رائٹس ایوارڈ ملنے پر پاکستان کے انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک معروف شخصیت آئی اے رحمان نے کہا،''حنا جیلانی کو ملنے والا ایوارڈ نہ صرف ہیومن رائٹس کے لیے سرگرم برادری بلکہ پورے ملک کے لیے باعث فخر ہے۔‘‘

کشور مصطفیٰ     

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں