1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عورت مارچ کی مخالفت گندے مائنڈ سیٹ کی علامت ہے: حنا جیلانی

27 فروری 2020

عورت مارچ پر پابندی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست مسترد کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عورت مارچ کو کوئی نہیں روک سکتا۔

https://p.dw.com/p/3YVb1
Hina Jilani, Lahore,  Aurat March, Pakistan,
تصویر: Qurat Mirza

عورت مارچ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جوڈیشل ایکٹیوزم کونسل کے چیئرمین اظہر صدیق نے درج کرائی تھی۔ اس پٹیشن کے بارے اُن کا مؤقف یہ تھا کہ عورت مارچ کو ملک دشمن پارٹیوں کی جانب سے عوام میں انتشار پھیلانے کے مقصد سے مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ مارچ اسلامی اقدار کے منافی ہے اور معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے۔ اس طرح کے اعتراضات  اسلامی حلقوں، خاص طور سے جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے بھی اُٹھائے گئے اور اس سال یعنی اگلے ماہ آٹھ مارچ کو اس مارچ کے انعقاد کو روکنے اور اس پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔  عورت مارچ کے مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ برس اس مارچ میں خواتین نے قابل اعتراض پلے کارڈز اٹھائے تھے جو بے حیائی کے مترادف تھے۔

Sherry Rehman Pakistan Gruppenmeeting Politik
شیری رحمان کے ساتھ نیشنل پبلک گروپ کی خواتین۔تصویر: Qurat Mirza

27 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں اظہر صدیق کی جانب سے درج کرائی گئی پیٹیشن کی سماعت کے دوران وہاں ڈائریکٹر ایف آئی اے عبدالرب اور ڈی آئی جی آپریشنز عدالت میں موجود تھے۔ دوسری جانب درخواست کی مخالفت میں انسانی حقوق کے لیے عشروں سے جدوجہد کرنے والی معروف ایڈوکیٹ حنا جیلانی اور سائبر کرائم کے انسداد کے لیے کام کرنے والی انٹرنیٹ ایکسپرٹ نگہت داد لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئیں۔ اس موقع پر حنا جیلانی نے کہا،''اس ریلی کو متنازعہ بنانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ہماری بچیاں اپنی اقدار کو بخوبی جانتی ہیں۔ یہ خواتین اس وقت اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ انہیں آزادیء رائے کا حق حاصل ہے۔‘‘

واضح رہے کہ درخوست گزار اظہر صدیق نے عورت مارچ کی تشہیراور سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں شائع ہونے والے مواد پر اعتراضات کرتے ہوئے اس کے خلاف درخواست دی تھی۔ اس بارے میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ریماکس میں کہا کہ سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دار بیانات نہیں ہونے چاہیے۔ چیف جسٹس نے آزادی اظہار کے بارے میں کہا کہ اس  پر ایسے پابندی نہیں لگ سکتی۔ عدالت صرف سرکاری اداروں کا موقف جاننا چاہتی ہے۔

Pakistan Marsch der Frauen beim Internationalen Frauenstag
ہماری بچیاں اپنے بنیادی حقوق کے لیے لڑ رہی ہے: حنا جیلانیتصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

سول سوسائٹی اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم  حنا جیلانی نے عدالت میں اس امر پر اعتراض کیا کہ درخواست گزار کا عورت مارچ سے کیا تعلق ہے اور وہ اس کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی کیوں چاہتا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ خواتین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اس سال اس کا انعقاد اتوار کے روز ہو رہا ہے، جس سے کاروبار متاثر ہونے کا خدشہ بھی نہیں۔

حنا جیلانی کا کہنا تھا، '' یہ اشتہار اور سوشل میڈیا کا معاملہ نہیں بلکہ یہ وہ گندی ذہنیت ہے جس کی وجہ سے یہ ہر چیز میں عُریانیت دیکھتے ہیں۔  ہماری مختلف نسلیں اس ریلی میں حصہ لیتی ہیں۔ ہمیں تہذیب کا زیادہ پتا ہے۔ ہم اپنے ماں باپ سے سیکھ کر آئے ہیں، ہم اپنی سوشل ویلیوز ان پیٹیشنرز سے سیکھنے نہیں آئے‘‘۔

Demonstration für Frauenrechte in Pakistan
پاکستانی خواتین ہر سال آٹھ مارچ خواتین کے بین الاقوامی دن کو زور و شور سے مناتی ہیں۔تصویر: AP

اُدھر عورت مارچ کی تیاریوں میں مصروف نیشنل پبلک گروپ کی سرکردہ خواتین نے بُدھ کو کراچی میں سابق سینیٹر، سفارتکار اور انسانی، خاص طور سے خواتین کے حقوق کی سرکردہ کارکن شیری رحمان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ان خواتین نے اس سال عورت مارچ کے انعقاد کو بھرپور طریقے سے ممکن بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ دریں اثناء پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو نے بھی عورت مارچ کے انعقاد کی بھرپور حمایت کا اظہار کرتے ہوئے سندھ اور پورے پاکستان میں اس کے لیے موثر اقدامات کا یقین دلایا ہے۔

ک م/ ع ت

 

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید