1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل یروشلم میں فلسطینیوں کے مکانات کیوں مسمار کر رہا ہے؟

12 فروری 2023

فلسطینیوں کا ماننا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست اسرائیلی حکومت کی جانب سے مکانوں کو مسمار کرنے کی رفتار میں اس قدر تیزی دراصل مشرقی یروشلم پر کنٹرول کے لیے جاری وسیع تر جنگ کا ہی ایک حصہ ہے۔

https://p.dw.com/p/4NJgy
Israel zerstört ein palästinensisches Haus in Ostjerusalem Archiv März 2014
تصویر: picture alliance/landov

رطب مطار کا کنبہ بڑھ رہا تھا اور انہیں رہائش کے لیے مزید جگہ کی ضرورت تھی۔ اپنی پوتیوں کی پیدائش سے قبل، جو اب چار اور پانچ برس کی ہیں، انہوں نے یروشلم کے قدیم مشرقی ڈھلان پر اپنے لیے تین اپارٹمنٹس تعمیر کیے تھے۔

مشرقی یروشلم: یہودیوں کی عبادت گاہ کے باہر فائرنگ سے سات افراد ہلاک

تعمیرات کا کام کرنے والے 50 سالہ مطار اپنے بھائی، بیٹے، مطلقہ بیٹی اور ان کے چھوٹے بچوں کے ساتھ مجموعی طور پر 11 لوگوں کے علاوہ چند بطخوں کے ساتھ مدت سے یہاں آباد ہیں۔

یروشلم میں جھڑپیں، 152 افراد زخمی

 لیکن  کچھ عرصہ پہلے مطار کے لیے زندگی کا کوئی لمحہ پرسکون نہیں رہا کیونکہ کسی بھی لمحے ضابطہ نافذ کرنے والے اسرائیلی اہلکار ان کے دروازے پر دستک دے سکتے تھے، جو کہ ان کا سب کچھ چھین لینے کے بھی مجاز تھے۔ 29 جنوری کو یہ لمحہ اس وقت آ ہی گیا، جب مشرقی یروشلم میں ایک فلسطینی بندوق بردار نے فائرنگ کر کے سات افراد کو ہلاک کر دیا۔ یہ حملہ سن 2008ء کے بعد سے مہلک ترین حملہ تھا۔

کیا امریکا مشرقی یروشلم میں فلسطین کے لیے اپنا سفارتی مشن دوبارہ  کھول سکے گا؟

اس حملے کے فوری بعد اسرائیل کے نئے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے نہ صرف حملہ آور کے خاندان کے مکان کو سیل کرنے کا حکم دیا بلکہ اس سلسلے میں دیگر تعزیری اقدامات کے ساتھ ہی مشرقی یروشلم میں بغیر اجازت تعمیر کیے گئے درجنوں فلسطینی مکانوں کو بھی فوری طور پر مسمار کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

'اسرائیلیوں سے بچ کے رہنا‘

بین گویر کے حکم کے چند گھنٹے بعد ہی پہلا بلڈوزر مطار کے پڑوس میں واقع جبل مکبر کے مکان پر چلنا شروع ہو گیا۔

Israel zerstört Aktivisten-Camp bei Khan al-Ahmar
فلسطینیوں کا ماننا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست حکومت کی جانب سے مکانوں کو مسمار کرنے کی رفتار میں اس قدر تیزی دراصل مشرقی یروشلم پر کنٹرول کے لیے جاری وسیع تر جنگ کا ہی ایک حصہ ہےتصویر: picture-alliance/AA/I. Rimawi

بہت سے فلسطینیوں کا ماننا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست حکومت کی جانب سے مکانوں کو مسمار کرنے کی رفتار میں اس قدر تیزی دراصل مشرقی یروشلم پر کنٹرول کے لیے جاری وسیع تر جنگ کا ہی ایک حصہ ہے۔ اسرائیل نے سن 1967ء کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی آزاد ریاست کے دارالحکومت کے طور دیکھتے ہیں۔

مشرقی یروشلم پر قبضے کی یہ جنگ اب عمارات کی تعمیر کے پرمٹ اور مکانوں کی مسماری کے احکامات کے ساتھ لڑی جا رہی ہے اور یہ ایک ایسی جنگ ہے، جس کے بارے میں فلسطینیوں کو لگتا ہے کہ وہ اسے جیت نہیں سکتے۔ دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ محض عمارات سے متعلق ضوابط کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مطار کے بھائی اور بیٹے اپنے گھر کے کھنڈرات کے پاس لیٹے ہوئے کڑوی کافی کے گھونٹ لے رہے ہیں۔ ان سے ملاقات کے لیے آنے والے بہت سے لوگ کسی سوگوار محفل کی طرح ان سے مل رہے تھے۔ اس ماحول میں وہ کہتے ہیں، ''ہماری تعمیرات اسرائیل کے محاصرے میں ہیں۔ ہم نے مکان بنانے کی بڑی کوشش کی لیکن یہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ ماہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں آباد فلسطینیوں کے 39 مکانات اور دیگر کاروباری عمارتیں مسمار کر دیں، جن کی وجہ سے 50 سے زائد افراد بے گھر ہو گئے۔ بین گویر نے اپنے ٹویٹر پر کئی تصاویر بھی شیئر کیں، جن میں بلڈوزر فلسطینیوں کی عمارتیں منہدم کر رہے ہیں۔

Jerusalem Silwan palästinensische Flagge Archiv 2013
سن 2017ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ایک تحقیقی رپورٹ میں تعمیر کے لیے پرمٹ حاصل کرنا ''عملی طور پر ناممکن‘‘ قرار دیا گیاتصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images

ان تصاویر کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیر نے لکھا، ''ہم دہشت گردی سے لڑنے کے لیے تمام ذرائع کا استعمال کریں گے۔‘‘ حالانکہ فلسطینی لڑکے کی فائرنگ کے واقعے سے مطار کے مکان کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔

فلسطینیوں کے لیے مشرقی یروشلم میں مکان تعمیر کرنے کے لیے اسرائیلی حکام سے پرمٹ حاصل کرنا تقریبا ًناممکن ہے اور اسی لیے بیشتر فلسطینی اپارٹمنٹس بغیر اجازت تعمیر کیے گئے تھے۔ سن 2017ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ایک تحقیقی رپورٹ میں تعمیر کے لیے پرمٹ حاصل کرنا ''عملی طور پر ناممکن‘‘ قرار دیا گیا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی میونسپلٹی فلسطینیوں کی ترقی کے لیے بہت کم زمین فراہم کرتی ہے لیکن اسرائیلی بستیوں کی توسیع میں سہولت فراہم کرتی ہے۔ سن 1967ء میں جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا، اس سے قبل تک فلسطینیوں کی جائیدادیں بہت کم رجسٹرڈ کی گئی تھیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس اسرائیلی قبضے کو آج تک تسلیم بھی نہیں کیا گیا۔

مطار نے بتایا کہ شہری انتظامیہ نے ان کے مکان کی تعمیر کے لیے اجازت نامے کی درخواست کو دو بار مسترد کر دیا کیونکہ ان کا علاقہ رہائشی ترقی کے زون نہیں آتا۔ اب وہ تیسری بار کوشش کر رہے ہیں کیونکہ بغیر اجازت کے تعمیر کردہ عمارت کی سزا اسے مسمار کر دیا جانا ہے۔

اگر خاندان خود اپنے گھروں کو مسمار نہیں کرتے تو حکومت ان کے گھروں کو توڑ کر اس کام کی فیس بھی وصول کرتی ہے۔ مطار اس حوالے سے اپنے بل سے خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ ایسے پڑوسیوں کو جانتے ہیں، جنہوں نے اپنے مکانات کو مسمار کرنے کی قیمت 20 ہزار سے زیادہ امریکی ڈالر دے کر چکائی ہے۔

Bulldozer in Jerusalem
تصویر: AP

بے گھر ہو چکے مطار اب اپنے خاندان کے ساتھ رشتہ داروں کے پاس رہ رہے ہیں۔ اپنے دادا دادی سے وراثت میں ملنے والی اس زمین پر انہوں نے دوبارہ اپنا مکان تعمیر کرنے کا عہد کیا ہے لیکن انہیں اسرائیل کے قانونی نظام پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ وہ الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''وہ پورے یروشلم میں ایک بھی فلسطینی نہیں چاہتے۔‘‘

اس کے برعکس سامنے ہی ان کے پڑوس کے وسط میں، حال ہی میں یہودیوں کے لیے تعمیر کیے گئے درجنوں مکانات پر اسرائیلی پرچم لہرا رہے ہیں۔ یروشلم کی جغرافیائی سیاست میں مہارت رکھنے والے ایک اسرائیلی وکیل ڈینیئل اسیڈمین نے حکومت کے شماریات بیورو اور اپنے تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سن 1967ء میں اسرائیلی قبضے کے بعد سے حکومت نے شہر کے مشرقی حصے میں اسرائیلیوں کے لیے 58 ہزار مکانات تعمیر کیے ہیں، جبکہ فلسطینیوں کے لیے 600 سے بھی کم گھر تعمیر کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے،  ''تعمیری منصوبہ بندی کا نظام قومی جدوجہد کے حساب کتاب سے طے ہوتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کا، جو منصوبہ ہے، اس میں قدیمی شہر کو ریاستی پارکوں کے گھیرے میں دکھایا گیا ہے اور جبل مکبر کا تقریباً 60 فیصد حصہ گرین زون میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں کی ترقی محدود کر دی گئی ہے۔‘‘ 

نگراں اداروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے مشرقی یروشلم میں کم از کم 20 ہزار فلسطینی مکانات کو اب مسمار کرنے کا منصوبہ ہے۔

مطار اور ان کے دیگر پڑوسیوں کو اب ایک اذیت ناک انتخاب کا سامنا ہے: یا تو وہ غیر قانونی طور پر اپنا مکان تعمیر کریں اور پھر اس کے مسمار ہونے کے مسلسل خطرے میں رہیں۔ یا پھر اپنی جائے پیدائش کی زمینیں مقبوضہ مغربی کنارے کے لیے چھوڑ دیں۔ یروشلم کے رہائشی حقوق کی قربانی دینے کے اس عمل کے بدلے میں انہیں پورے اسرائیل میں نسبتاً آزادانہ طور پر کام کرنے اور سفر کرنے کی اجازت حاصل ہو سکتی ہے۔

ایئر امیم نامی معروف ادارے میں کام کرنے والے محقق ایوی تاتاراسکائی کہتے ہیں، ''اس پالیسی کا مقصد ہی یہ ہے کہ فلسطینی کسی طرح یروشلم چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔‘‘

یروشلم کے ڈپٹی میئر اور آباد کاری امور کے رہنما اریہہ کنگ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مسماری کے عمل سے اسرائیل کو مشرقی یروشلم پر کنٹرول حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے، جو شہر کے اہم ترین مذہبی مقامات کا بھی گھر ہے۔

وہ بین گویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''یہ خود مختاری کو نافذ کرنے کا ایک حصہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آخر کار ہمارے پاس ایک ایسا وزیر ہے، جو اس بات کو سمجھتا ہے۔‘‘

ادھر بین گویر ایک ایسے فلسطینی اپارٹمنٹ ٹاور کی تباہی پر زور دے رہے ہیں، جس میں سو سے زیادہ فلسطینی رہتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم نیتن یاہو کشیدگی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرائیلی میڈیا کی خبروں کے مطابق منگل کے روز ہی ہونے والی بے دخلی میں تاخیر کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کنگ کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کے لیے تعمیرات کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنا ممکن ہے اور وہ ان پر مہنگی بیوروکریسی سے بچنے کے لیے بغیر اجازت کے تعمیر کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

مشرقی یروشلم میں رہنے والے العباسی خاندان کو گزشتہ ماہ، جب اپنے نئے گھر کو مسمار کرنے کا حکم ملا تو انہوں نے اپنے حالات پر غور و فکر کیا۔ آٹھ برس قبل اسی مقام پر بنے ہوئے ان کے آخری اپارٹمنٹ کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ نوٹس ملنے کے بعد اس بار جعفر العباسی نے خود ہی اسے گرانے کا فیصلہ کیا۔

العباسی نے کرایے پر ایک ٹریکٹر لیا اور اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو بھی گھر گرانے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ ان کے تینوں بیٹوں نے ہتھوڑے اٹھائے اور انہیں دیواروں پر مارنا شروع کر دیا، جسے انہوں نے پچھلے ماہ ہی رنگین پلیٹوں سے سجایا تھا۔

ان کے بہنوئی مصطفیٰ کا کہنا تھا، ''یہ جگہ ایک ٹک ٹک کرتے ٹائم بم کی طرح ہے۔‘‘ انہدامی کارروائی کے خلاف حالیہ دنوں میں مشرقی یروشلم میں مظاہروں نے بھی ہلچل مچائی ہے۔

 مصطفیٰ نے بتایا کہ دو ہفتے قبل ان کے خاندان کے ایک 13 سالہ لڑکے نے یہودی آباد کاروں پر فائرنگ کی تھی، جس میں دو افراد زخمی ہوئے تھے۔ لڑکے کو اسرائیلی فورسز نے موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

ص ز/ ج ا (اے پی)

اسرائیلی فوج کے ساتھ فلسطینیوں کی جھڑپیں