1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
عقیدہاسرائیل

یروشلم میں جھڑپیں، 152 افراد زخمی

16 اپریل 2022

فلسطینوں اور اسرائیلی پولیس کے مابین جمعے کے روز جھڑپوں کا سلسلہ مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں شروع ہوا۔ طبی ذرائع کے مطابق کم از کم 152 افراد زخمی ہوئے۔

https://p.dw.com/p/4A1Ne
تصویر: Mahmoud Illean/AP Photo/picture alliance

فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان یروشلم میں جھڑپیں

اسرائیلی پولیس اور فلسطینوں کے مابین جمعے کے روز ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 152 افراد زخمی ہوئے۔ یہ جھڑپیں مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں ہوئیں۔

یہ احاطہ ماضی میں بھی مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تصادم کا مرکز رہا ہے۔ مسجد الاقصیٰ مسلمانوں کے نزدیک تیسرا مقدس ترین مقام ہے جب کہ یہودی اسے ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں اور ان کے لیے بھی یہ مقدس ترین مقام ہے۔

علاوہ ازیں مسیحیوں کے لیے بھی یہ جگہ انتہائی مقدس ہے۔

تصادم اس وقت شروع ہوا جب رمضان کے پہلے جمعے کے لیے ہزاروں مسلمانوں نے مسجد الاقصیٰ کا رخ کیا۔ یہودیوں کی عید فسح کا آغاز بھی جمعے کی شام ہوا۔

اس برس ایسٹر کا تہوار بھی رمضان اور عید فسح کے ساتھ ہی آ چکا ہے اور  توقع ہے کہ اس سلسلے میں دنیا بھر سے مسیحی عقیدے کے افراد بھی یروشلم کا رخ کریں گے۔

فلسطینی ہلال احمر کے مطابق جھڑپوں کے دوران سٹن گرینیڈ اور لاٹھی چارج کے باعث 152 افراد زخمی ہوئے۔

جمعے کی صبح کیا ہوا؟

اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ''حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے جھنڈے اٹھائے درجنوں نقاب پوش افراد نے مسجد الاقصیٰ کی طرف مارچ کیا ۔۔۔ وہ بھڑکانے والے پیغامات پر مبنی نعرے لگا رہے تھے۔‘‘

اسرائیلی حکام کا مزید کہنا تھا کہ مسجد میں جمع افراد نے ''پتھر جمع کیے جس کے بعد انہوں نے مغربی دروازے کی طرف پتھراؤ شروع کر دیا۔‘‘ مغربی دیوار یہودیوں کے نزدیک مقدس ہے۔

اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ انہیں، ''مجبورا مظاہرین کو منتشر کرنے، پتھر ہٹانے اور مزید تشدد کو روکنے لیے احاطے میں جانا پڑا۔‘‘

تاہم اسرائیلی پولیس کے مطابق وہ مسجد میں داخل نہیں ہوئے۔

آن لائن گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فلسطینی پتھراؤ کر رہے ہیں اور اسرائیلی پولیس ان پر آنسو گیس اور سٹن گرینیڈ پھینک رہی ہے۔

اسرائیلی پولیس کے مطابق پتھراؤ کے باعث ان کے اہلکار بھی زخمی ہوئے۔

سینکڑوں فلسطینی گرفتار

فلسطینی پرسنرز کلب کا کہنا ہے کہ قریب 400 فلسطینوں کو گرفتار کیا گیا۔

بعد ازاں مسجد کو دوبارہ کھول دیا گیا اور جمعے کی مرکزی نماز میں 60 ہزار سے زائد افراد شریک ہوئے۔

عالمی برادری کا ردِ عمل کیا رہا؟

جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں جمعے کے روز پیش آنے والے پرتشدد واقعات کی مذمت کی گئی۔

ان یورپی ممالک کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ''ہم تمام فریقوں سے انتہائی برداشت کا مظاہرہ کرنے اور ہر قسم کے تشدد اور اشتعال انگیزی سے گریز کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘

Israel | Zusammenstöße auf dem Tempelberg in Jerusalem
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images

امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی طرفین سے کشیدگی میں کمی لانے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

پرائس نے کہا، ''ہم تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے، اشتعال انگیز اقدامات اور بیانات سے گریز کرنے اور حرم الشریف/ٹیمپل ماؤنٹ کی تاریخی حیثیت برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘

مسجد الاقصیٰ میں تشدد کا معاملہ حساس کیوں ہے؟

فلسطینیوں کے نزدیک مسجد الاقصیٰ اپنی ریاست کے حصول کی جدوجہد کی علامت ہے اور بھاری تعداد میں پولیس کی تعیناتی ان کے لیے اشتعال انگیزی کے مترادف ہے۔

گزشتہ برس رمضان کے مہینے ہی میں مسجد الاقصیٰ اور یروشلم میں تصادم کے نتیجے میں اسرائیل اور غزہ میں حکومت کرنے والی فلسطینی جنگجو تنظیم حماس کے درمیان گیارہ روز تک جھڑپیں ہوئی تھیں۔

اس برس رمضان کے آغاز سے قبل ہی اسرائیل اور اردن نے گزشتہ برس جیسے واقعات روکنے کے لیے مذاکرات شروع کر دیے تھے۔

ش ح/ب ج (روئٹرز، اے پی)