ارشد ندیم پر انعامات کی بارش جاری
16 اگست 2024پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بانس کی چھڑی سے نیزہ (جیولین) بنانے کے ایک دہائی سے زائد عرصے بعد ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والی تھرو کر کے دنیا کو دنگ کر دیا۔
ندیم نے اے آر وائی نیوز ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے کہا، ''میں نے 2012 میں یہ جیولین خود بنایا تھا۔‘‘آٹھ اگست کو پیرس میں اپنے بھارتی حریف نیرج چوپڑا کو شکست دینے کے بعد سے ندیم پاکستان میں ایک سنسنی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس تھرو نے ارشد ندیم پر انعامات کی بارش کرا دی اور ابھی تک انہیں ایک ملین ڈالر سے زائد رقم مل چکی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے 150 ملین روپے ( 538,000 ڈالر) کی انعامی رقم کا وعدہ کیا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے گزشتہ منگل کو ارشد ندیم کے گاؤں پہنچ کر انہیں 100 ملین روپے (359,000 ڈالر) کا چیک دیا تھا۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی ندیم کو 50 ملین روپے ($ 179,500) دینے کا وعدہ کیا ہے۔ 250 ملین کی آبادی کے حامل اور کرکٹ کے کھیل سے جنون کی حد تک محبت رکھنے والے ملک میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ ارشد ندیم نے چھوٹی عمر میں ابتدائی طور پر بلے اور گیند کے کھیل کو اپنایا۔ تاہم پھر اپنے بڑے بھائی اور والد کے اس مشورے پر کہ وہ جیولن اور شاٹ ُپٹ میں قسمت آزمائی کریں، اس کے بعد ارشد ندیم کرکٹ بھول گئے۔
ارشد ندیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے والد اور بھائی کے مشورے کے بعد ''پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘‘ جیولین اٹھانے کے چار سال بعد ندیم پہلی مرتبہ بین الاقوامی منظرنامے پر اس وقت اُبھرے، جب انہوں نے بھارتی شہر گوہاٹی میں ساؤتھ ایشیا فیڈریشن گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ یہ وہ موقع تھا، جب ندیم پہلی بار نیرج چوپڑا سے ملے، جنہوں نے سونے کا تمغہ جیتا تھا۔
چوپڑا نے ٹوکیو اولمپکس میں بھی طلائی تمغہ جیتا، جہاں ندیم نے 84.62 میٹر کے فاصلے پر تھرو کرتے ہوئے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ ندیم نے جمعرات کو نشر ہونے والے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا، ''میں نے ٹوکیو اولمپکس کے فوراً بعد پیرس کے لیے ٹریننگ کرنا شروع کی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں پاکستان کے لیے کچھ خاص کر سکتا ہوں۔‘‘
پاکستان نے آخری بار 1984ء کے اولمپکس میں طلائی تمغہ حاصل کیا تھا، جو اس کی مردوں کی فیلڈ ہاکی ٹیم نے لاس اینجلس میں جیتا تھا۔ پیرس میں پاکستان کی نمائندگی صرف سات ایتھلیٹس نے سوئمنگ، ٹریک اور شوٹنگ ایونٹس میں کی لیکن ارشد ندیم کے سوا کوئی بھی پوڈیم تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
اس جیولین تھرور کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کی واحد امید تھے، ''میں نے کوالیفائنگ راؤنڈ سے دو دن پہلے سوشل میڈیا دیکھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ میں وطن میں موجود لاکھوں پاکستانیوں کی آخری امید تھا۔‘‘ پہلے تھرو میں ارشد اپنا رن کھونے کے سبب فاؤل کر بیٹھے لیکن اس کے بعد انہوں نے 86 میٹر فاصلے تک تھرو کرتے ہوئے فائنل راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا، ۔ اور پھر اپنی اگلی ہی کوشش میں انہوں نے ریکارڈ 92.97 میٹر کی تھرو کر ڈالی۔
ندیم کے اس کھیل میں ابتدائی دنوں کے کوچ ارشد احمد ساقی نے کہا، ''جب وہ بارہ سال قبل پہلی بار میرے پاس آیا تھا، مجھے یقین تھا کہ ایک دن وہ 90 میٹر کے نشان کو عبور کر لے گا۔‘‘
ساقی نے پہلی بار 2012 ء میں صوبہ پنجاب کے ضلع میاں چنوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ندیم کو لاہور میں صوبائی سطح کے ٹورنامنٹ میں بھیجا تھا۔ ندیم نے کہا کہ دوسرے تھرو کے بعد انہیں'' 90 سے 95 فیصد‘‘ یقین ہو گیا تھا کہ وہ گولڈ میڈل جیتیں گے لیکن وہ اپنی باقی چار کوششوں میں مزید آگے جانے کی کوشش کرتے رہے۔
ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے ارشد کا کہنا تھا، ''میں جانتا تھا کہ میں یہ کر سکتا ہوں۔ میری آخری تھرو بھی 90 میٹر سے زیادہ تھی کیونکہ مجھے خود پر یقین تھا۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ایک دن وہ عالمی ریکارڈ توڑ دیں گے۔ جب ارشد پیرس مقابلوں میں حصہ لے رہے تھے تو ادھر پاکستان میں ان کے اہل خانہ وقت کے فرق کی وجہ سے رات بھر جاگ کر مقابلہ دیکھتے تھے۔
اس دوران ان کی اہلیہ عائشہ بھی ان کے لیے دعا کرتی رہی تھیں۔ عائشہ نے کہا کہ میں تین راتوں تک نہیں سوئی ''میں جانتی تھی کہ وہ یہ کر سکتے ہیں اور میں نے ان کے لیے دعا کرنا بند نہیں کیا۔‘‘
ش ر⁄ ع ت (اے پی)