کسی قوم کی تہذیبی ترقی میں زبان اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ جب علمی و ادبی ترقی ہو تو زبان کو بدلنا ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ نئی اصطلاحات، استعماروں، تشبیہات اور ضرب المثال کے لیے وہ نئی تبدیلیوں کا اظہار کر سکے۔ کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔
نمبر ایک: اس میں تخلیقی فن، سماجی علوم اور سائنس کا ہونا لازمی ہے۔ دوسرا: یہ کہ ترجموں کے ذریعے ان خیالات اور افکار کو روشناس کرانا چاہیے جو زبان میں نہیں ہیں۔ کسی بھی زبان کی تحریر کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ سادہ اور سہل ہو۔ مشکل الفاظ کے ذریعے اس کے اسلوب کو مشکل نہ بنایا جائے۔
یہ بھی پڑھیے: ڈِکٹیٹر شپ کا بدلتا ہوا نظریہ
اس تناظر میں جب ہم اردو زبان کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو اس کے اولین دور میں مشکل زبان لکھنے کا رواج تھا۔ لیکن اخباروں اور ادبی رسالوں کی اشاعت سے زبان عام فہم ہونے لگی ہے۔ اردو زبان کی ترقی میں فورٹ ولیم کالج کا بھی بڑا حصہ ہے۔
لیکن اردو کے لیے سنہری دور کی اصطلاح اس عہد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ جب عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا، اور اس کے شعبہ تصنیف اور تالیف نے تاریخ، فلسفے، سیاسیات اور مذہب پر غیر ملکی زبانوں سے ترجمے کرائے۔ اس زمانے میں انجمن ترقی اردو نے ترجموں کے ذریعے انگریزی، جرمن اور فرانسیسی کتابوں کو شائع کیا۔
اردو زبان میں اس وقت ایک انقلاب آیا جب 1935 کی دھائی میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی۔ اس نے شاعری کے فرسودہ مضامین کو ختم کر کے نئے نظریات کے مطابق شاعری کی تشکیل کی۔ یہی تبدیلی اردو ناول اور افسانوں میں ہوئی۔ لیکن سماجی علوم اور سائنس پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے: خاموشی – ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر
تقسیم کے نتیجے میں اردو بھی انڈیا اور پاکستان میں بٹ گئی یا تقسیم ہو گئی۔ پاکستان میں اسے قومی زبان قرار دیا گیا تو ایسے ادارے قائم ہوئے جنہوں نے اردو کی ترقی کے لیے کام کیا۔
امتیاز علی تاج نے مجلس ترقی ادب کے ذریعے اردو کے کلاسیکی ادب کو شائع کرایا۔ اشفاق احمد کی سربراہی میں اردو مرکزی بورڈ نے عہد وسطی کی تاریخ میں فارسی ماخذوں کا ترجمہ کرایا۔
امریکی فنڈ سے قائم ہونے والے مکتبہ فرینکلن نے تاریخ، سیاسیات اور سائنس پر اردو ترجموں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اردو زبان کی مقبولیت میں اخباروں، ادبی رسالوں اور ہندوستان میں بننے والی فلموں کا بھی بڑا حصہ ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ معاشرہ تبدیل ہوتا رہا۔ 1971 کی جنگ اور بنگلہ دیش کی آزادی نے پاکستان تاریخ کو بدل ڈالا وہ تمام ادارے جو اردو کی ترقی کے لیے قائم ہوئے تھے۔ یا تو وہ ایک ایک کر کے ختم ہو گئے یا کتابوں کی اشاعت کم ہو گئی۔ جب ملکی سیاست بدلی تو اس کے ساتھ ہی اردو زبان کو بھی ذوال ہونا شروع ہوا۔
غیر ملکی کتابوں کے ترجمے ریاستی اداروں کی بجائے پبلشر، مارکیٹ کی مانگ کے مطابق کروانے لگے، اور بول چال کی زبان بدل گئی۔ اب تعلیم یافتہ نوجوان آدھا جملہ اردو میں اور آدھا انگریزی میں بولتے ہیں۔ موبائل فون میں اب رومن رسم الخط استعمال ہوتا ہے۔
موجودہ دور میں اردو یا تو شاعری کی زبان ہے اور ہر شاعری بھی فرسودہ مضامین پر مبنی ہوتی ہے۔ شاعر اپنے پیسوں سے کتاب شائع کرواتا ہے۔ اس کی رونمائی کراتا ہے۔ اسے دوستوں میں تقسیم کرتا ہے، اور پھر یہ روپوش ہو جاتی ہے۔
شاعری کے بعد اردو مذہب کی زبان ہو گئی ہے۔ مذہبی موضوعات پر بےشمار کتابیں شائع ہوتی ہیں اور کتابی میلوں میں خوب فروخت ہوتی ہیں۔ مذہبی اردو کا ادبی اردو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں عربی کے الفاظ کو بےحد استعمال کیا جاتا ہے۔ تا کہ لوگ متاثر ہوں۔
اردو میں سماجی علوم اور سائنسی موضوعات کی اوریجنل ریسرچ نہیں کی جا رہی ہے۔ اردو کے معیار کو گرانے میں صحافیوں کی کالم نگاری کو بھی بڑا دخل ہے۔ یہی صورت حال ٹی وی چینل کی نشریات کا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سکولوں کے نصاب کو تبدیل کر کے اس میں سے کلاسیکل ادب اور نئے علمی افکار و خیالات کو نکال دیا گیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب اردو زبان میں علمی اور سائنسی خیالات پیدا نہیں ہوں گے، اور مذہبی کتابیں بڑی تعداد میں چھپتی رہیں گی تو معاشرے کا ذہن بھی فرسودہ روایات اور افکار میں ڈھلتا رہے گا۔ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے چند دانشور انگریزی میں لکھ کر باہر کے پبلشر سے اپنی کتابیں شائع کرواتے ہیں جس کی پاکستان میں بیس سے تیس ہزار تک قیمت ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: عہدِ وسطیٰ کا ہندوستان
جب پاکستانی دانشور اپنی زبان اور اپنے عوام کے لیے نہیں لکھیں گے تو ان میں نئی سوچ اور فکر کہاں سے پیدا ہو گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو زبان کا معاشرے میں کوئی کردار نہیں رہا ہے۔
کیونکہ یہ علمی اور سائنسی زبان نہیں بن پائی۔ اب اس کا ایک ہی مصرف نظر آتا ہے کہ زبان کے معیار کو مسلسل گرایا جاتا رہے۔ سیاستدان اور دانشور اسے اخباروں اور یوٹیوب کے چینلز کے ذریعے لوگوں کے جذبات کو ابھارتے رہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔