1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آپ استعفیٰ دیں گے؟ نہ کریں جی!

مطیع اللہ جان
6 ستمبر 2020

جس ملک میں جنرل صاحب کو برطرف تو درکنار بروقت ریٹائر بھی نہ کیا جا سکے، اس ملک میں ان کا استعفیٰ ایک وزیراعظم کو بھی شک میں ہی مبتلا رکھے گا کہ خدانخواستہ جنرل صاحب استعفیٰ دینے کی آڑ میں استعفیٰ مانگ تو نہیں رہے؟

https://p.dw.com/p/3i3sb
Matiullah Jan
تصویر: Privat

جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے احمد نورانی کی اسٹوری پر ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا مگر پھر ان کے اپنے ہی ضمیر نے مشورہ دیا کہ ذرا وزیر اعظم صاحب کی منظوری بھی لے لی جائے تو کیا ہی بات ہے۔ پھر جب ایسی ہلکی گیند ایک 'ماہر کپتان‘ کے بلے پر آئی تو چھکے کی صورت اسٹیڈیم کے باہر پہنچ گئی۔ یہ ایک ایسا چھکا تھا کہ جس پر باؤلر بھی واہ واہ کر اٹھا اور 'قومی یوتھ اسٹیڈیم‘ بھی تالیوں سے گونج اٹھا۔

 ایمپائر بھی دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر خوشی سے جھوم اٹھا۔ قوم کو صرف یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ میچ شروع کب ہوا تھا اور یہ کہ یہ میچ ہے کون سا، ٹی ٹوئنٹی، ون ڈے یا ٹیسٹ میچ؟ جس میچ کا کسی کو پتا ہی نہیں تھا، اس کے چھکے کی خبر ہر جگہ چلی،  جس خبر کا تذکرہ ملک کے کسی چینل پر نہ ہوا، اس خبر کی تردید معمول کی نشریات کو روک کر دکھائی گئی۔

جنرل عاصم سلیم باجوہ کے لیے بھی 'سیاسی انجینئیرنگ‘ سے عملی سیاست میں قدم رکھنا ایک نیا تجربہ تھا۔ بطور ڈی جی آئی ایس پی آر، جس نئے پاکستان کی بنیاد انہوں نے ڈی چوک میں رکھی تھی، وہ نیا پاکستان اپنے بانی سے ایسی بے وفائی کیوں کرتا؟  وزیر اعظم عمران خان نے کرپشن کے خلاف جس تحریک کا آغاز کیا تھا، اس کا مقصد رسیدیں مانگنا تھا نہ کہ رسیدیں دینا۔

 ویسے بھی جو لوگ اپنے سرکاری بجٹ کی رسیدیں دینے سے انکاری ہوں، وہ لوگ امریکا میں اپنے یا خاندان کے کاروبار کی رسیدیں کیوں دیں گے؟ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان بلا قانون ایکسٹینشن دیں گے تو پھر ان کے استعفے کس طرح قبول کریں گے؟ حیرت تو اپوزیشن جماعتوں پر بھی ہوتی ہے۔ فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں پارلیمنٹ کے 'ولیمہ نما اجلاس‘ کے ذریعے ایکسٹینشن دینے والے اب جنرل عاصم سلیم باجوہ سے استعفی کیوں کر مانگ رہے ہیں؟ 

یہ بھی پڑھیے:

عاصم سلیم باجوہ کی وضاحت کے بعد پاکستان میں بحث جاری

عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کے مبینہ اثاثے، رپورٹ اور ردِ عمل

مگر اب بات جنرل صاحب کے استعفے سے آگے نکل کر وزیر اعظم صاحب کے اطمینان کے معیار تک چلی گئی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کہتے ہیں جنرل باجوہ نے استعفے کے ساتھ اچانک سامنے آنے والے اثاثوں سے متعلق، جو وضاحت دی ہے، وہ اطمینان بخش ہے۔ وہ وزیر دفاع پرویز خٹک کی دفاعی حکمت عملی اور خصوصی معاون جنرل عاصم باجوہ کی اطلاعات و نشریات کی مہارت دونوں سے مطمئن ہیں۔ جنرل عاصم باجوہ کے بطور ڈی جی آئی ایس پی آر تجربے کا فائدہ اتنا ان کے سابق ادارے نے نہیں اٹھایا تھا، جتنا اب وزیراعظم عمران خان اٹھا رہے ہیں۔ نئے پاکستان میں میڈیا کی بے مثال ''آزادی‘‘  کی بنیاد رکھنے والے بھی جنرل عاصم سلیم باجوہ ہی ہیں۔ پانچویں نسل کی انٹرنیٹ جنگ کو دریافت کر کے نوجوان اذہان کو ''راہ راست‘‘ پر ڈالنے کا عمل بھی انہیں کا شروع کردہ ہے۔ اس 'ہائبرڈ جنگ‘  کا سامنا ایک 'ہائبرڈ جمہوری نظام‘ سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایسی جمہوریت، جس میں عہدہ سویلین وزیر، مشیر یا معاون کا ہو اور اس کے ہاتھ میں وراثتی چھڑی کسی جرنیل کی ہو۔

 ایسے میں ایک صحافی دن دہاڑے اسلام آباد جیسے ''سیف سٹی‘‘ سے اغوا ہو کر دس گھنٹے قید اور تشدد کے بعد جب بازیاب ہو اور ایک ویڈیو میں پولیس کے باوردی، مسلح پولیس گاڑیوں میں آئے اہلکار بھی نظر آ رہے ہوں تو پھر ڈیڑھ ماہ کی پولیس تفتیش کے بعد وزیر اعظم انٹرویو میں کہہ سکتے ہیں کہ ''اغوا ہونے کا دعویٰ کرنے والا ایک صحافی، جسے اللہ جانے کیوں اٹھایا گیا اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے، اس کے علاوہ تو میڈیا آزاد ہے۔‘‘

خیر ملک کے بڑے بڑے اینکروں کو بھی جنرل عاصم باجوہ کے اثاثوں کی خبر پر بات کرنے کی ہمت نہ پڑی اور سونے پہ سہاگا یہ ہےکہ جنرل صاحب کی وضاحت آئی تو ان اینکروں کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آئی، بریکنگ نیوز 'نکاح کے چھواروں‘ کی طرح بانٹی گئی۔ اصل الزامات کیا تھے، رپورٹ کیا تھی، بیرون ملک اثاثے کیسے بنے؟ اس پر ملک کا کوئی صحافی رپورٹ نہیں کر سکا۔ سیاستدانوں کی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک پاکستان کا نعرہ لگانے والے صحافیوں کے قلم بھی اگر خاموش ہو جائیں تو یہ صحافی بھی بددیانتی کا شکار ہو رہے ہیں۔