1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئیے مردوں پر جملے کسیں

DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
سعدیہ مظہر
11 اگست 2024

پاکستانی معاشرے میں خواتین کو عمومی سماجی رویوں میں جنسی اور صنفی بنیادوں پر ہراسانی کا سامنا رہتا ہے۔ سعدیہ مظہر کا تفصیلی بلاگ۔

https://p.dw.com/p/4gWVe
DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
تصویر: privat

 میں اپنی  آنکھوں کے چیک اپ کے لیے  ایک اسپیشلسٹ کے پاس گئی۔ اس کے اسسٹنٹ نے مجھے ڈیٹا اینٹری کے لیے بلایا۔ عمر پوچھنے پر  جب میں نے  اپنی عمر بتائی تو وہ صاحب لکھتے لکھتے ایک دم میری طرف متوجہ ہوئے اور صدیوں کی شناسائی آنکھوں میں سمیٹے گویا ہوئے،'' ماشاءاللہ آپ اتنی عمر کی لگتی تو نہیں ہیں۔ بہت اچھا مینٹین رکھا ہے آپ نے خود کو۔‘‘  میں نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں اور پھر اس صاحب کو اچھی طرح انکھیں دیکھا کر کلینک سے نکل آئی۔

یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ مردوں کی برتری والے اس معاشرے میں عورت ان کے لیے چلتا پھرتا آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا سامان رہی ہے۔ ''باجی دوپٹا اوپر کر لیں‘‘، تہذیب کے دائرے میں کہا جانے والا ایک عام سا جملہ ہے ۔ یہ ریت صدیوں سے رائج ہے شاید۔ گو اس رویے کا تعلق کسی مذہب ، ذات پات سے بھی نہیں بلکہ اقبال کے شعر کا وہ مصرع یہاں سب سے مکمل فٹ آتا ہے'' ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘۔ یعنی جملہ بازی کی اس فطرت کا تعلق جنس سے وابستہ ہے، مرد کی جنس سے  اور یہاں محمود و ایاز کا فرق بھی مٹ جاتا ہے ۔  اپ اسکول کی بچیوں سے لے کر کام کے لیے جانی والی خواتین، یہاں تک کے چار بچوں کی ماں سے  بھی پوچھیے تو پاس سے گزرتے ایک عام سا جملہ، ''ماشاءاللہ‘‘ یا ''سبحان اللہ‘‘ آنکھوں میں ایسی گندگی اتار کر انہیں بولا جاتا  ہے کہ ایک بار مخالف سمت پر کپکی ضرور طاری ہوتی ہے۔

کیا کبھی کسی عورت نے کسی مرد کو دیکھ کر سیٹی بجائی؟  پان کی  پچکاری ماری ؟ یا با آواز بلند جملہ کسا ؟ اور اس پر زور دار قہقہہ بلند کیا؟

تصور کیجیے اس سال میں صرف ایک دن عورت کی حکمرانی کا ہو۔ سڑکوں پر ٹھیلے عورتوں کے لگے ہوں، سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ میں ڈرائیور عورتیں ہوں ، ہسپتال،  آفس ہر جگہ عورت کی حاکمیت ہو اور مرد اقلیت دکھائی دیں۔ اب ذرا منظر کا لطف لیجیے گا کہ مرد بس اسٹاپ پر بس کا منتظر ہو اور پاس سے گزرتی خاتون سیٹی بجا کر ''اوے ہوئے‘‘ کہتی گزرے ۔ آفس میں مرد کو پروموشن ملے تو تمام خواتین اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہیں ''باس کے ساتھ سویا ہو گا‘‘۔ 

سبزی منڈی میں سبزی لینے جائے تو رش میں گزرتی عورت اسے کے جسم کو چھو کر کان میں کہہ کر گزرے ''ابے چکنے‘‘۔  بازار میں انڈر گارمنٹس لینے جائے تو عورت سائز پوچھتے پوچھتے اس کے وجود کا ایکسرے نکال کر کہے، ''بھائی بڑی جلدی سائز بڑھا رہا ہے‘‘، مرد یہاں لال شربت اور سائز زیرو سے استثناء رکھتا ہے۔

آدھی رات کو عورت کے  رکشے  میں بیٹھتے ہوئے مرد اتنا ہی غیر محفوظ تصور کرے جتنا ایک عورت محسوس کرتی ہے۔ کیا قانون قدرت میں وہ ایک دن نہیں آ سکتا؟ جب عورت مرد پر اسی انداز میں جملے بازی کرے، جیسے صدیوں سے مرد کرتا آیا ہے؟

عورت مارچ سے خائف یہ مرد،'' میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے پر تڑپتے تو ہیں مگر آج تک اتنی ہمت نہیں پیدا کر سکے کہ بتائیں اس تڑپ کی وجہ کیا ہے۔ بات تلخ ہے مگر سچائی پر مبنی ہے کہ یہ نعرہ اس لیے تکلیف کا باعث ہے کہ صدیوں سے عورت کے جسم پر مرد نے اپنا اختیار ہی تو سمجھا ہے، چاہے وہ عورت گھر کی چاردیواری میں ان کے قبضے میں ہو یا آفس میں ان کے ساتھ کام کرتی ہو۔ تو اس تسلط کے ختم ہونے کا خوف انہیں اتنا بے چین تو کرے گا۔

مردوں نے ہمیشہ سوال اٹھایا کہ عورت مارچ میں حقوق مانگتی یہ عورتیں بتائیں تو سہی کہ انہیں کون سے حقوق چاہیں ؟ تو ان کا سوال غلط نہیں ہے کہ مرد نے کبھی سڑک پر اپنے جسم کی بے توقیری نہیں سہی، مرد نے خود کو چادر میں یا برقعے میں چھپا کر بھی ان نگاہوں کو برداشت نہیں کیا جو روح تک کو زخمی کرتی ہیں۔ مرد نے کبھی جملے بازی کے وہ نشتر سہے ہی نہیں جسے ہر لڑکی جوانی میں قدم رکھتے ہی سہنا شروع کرتی ہے اور تا عمر سہتی ہے۔

اس لیے اب تاریخ بدلنے کی ضرورت ہے۔ دیجیے عورت کو اتنی اجازت کہ وہ مرد پر جملے کس سکے،  وہ دوپٹے میں منہ چھپائے مرد کو، گندی نگاہوں سے دیکھتے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے،  بدن کھجاتے ہوئے ''ماشاءاللہ‘‘ کہے ۔ وہ مرد کو اپنی سواری میں گھر چھوڑے تو فرنٹ شیشہ اس کی سمت سیٹ  کر کے دوران سفر اس پر نگاہیں جما کر اسے غیر محفوظ ہونے کا احساس دلا سکے۔

صرف ایک دن ۔ آئیے ہم مردوں پر صرف اس لیے جملے کسیں تاکہ انہیں بتا سکیں کہ عورت کن حقوق کے لیے سڑکوں پر آ رہی ہے۔ بتا سکے کے ''میرا جسم ، میری مرضی‘‘ کا اصل مقصد کیا ہے ۔ صرف ایک دن۔۔!

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔