1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں تارکین وطن کے صبر کا پیمانہ لبریز

شمشیر حیدر10 جون 2016

دو خیموں کو آگ لگا دی گئی، مُکے برسائے جانا شروع ہوئے، خوف سے بچے رونے لگے اور مہاجر خاندانوں کو جلتے ہوئے خیموں سے نکل کر رات کھلے آسمان تلے گزارنا پڑی۔ یونانی جزیروں پر ایسے مناظر آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1J4Ew
Griechenland Athen Flüchtlinge im Hungerstreik
تصویر: Jamshid Azizi

پاکستان، افغانستان، شام اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں تارکین وطن یورپی یونین اور ترکی کے مابین معاہدہ طے پانے کے بعد سے یونانی جزیروں پر پھنسے ہوئے ہیں اور مسلسل انتظار نے ان لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔

ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن

علی حیدر کو جرمنی سے ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟

یورپی یونین نے تو اس معاہدے کی بدولت تارکین وطن کی یورپ آمد کامیابی سے روک لی تاہم یونانی جزیروں پر پھنسے ہزاروں تارکین وطن اس انتظار میں ہیں کہ ان کی قسمت کے بارے میں جلد از جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ وہ یورپ میں اپنی نئی زندگی شروع کر سکیں یا دوسری صورت میں واپس ترکی بھیج دیے جائیں۔

یورپی حکام کے مطابق یونان میں پھنسے ان تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستوں کا جائزہ لینے اور فیصلہ کرنے کا عمل خاصی سست روی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے کیمپوں میں گنجائش سے زیادہ تارکین وطن کو رکھا جا رہا ہے اور انہیں طویل انتظار بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اس باعث ان میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔

یونانی پولیس کے مطابق جون کا مہینہ اب تک سب سے زیادہ بدامنی والا مہینہ ثابت ہوا، جس دوران تین یونانی جزائر پر متعدد جھگڑوں کے دوران درجنوں تارکین وطن زخمی بھی ہوئے۔ اسی مہینے کے دوران لیسبوس میں جھگڑے کے بعد ایک خیمے کو آگ لگ گئی، جس کی وجہ سے کئی خاندانوں کو رات کھلے آسمان تلے بسر کرنا پڑی۔

بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یونانی جزائر پر قائم کیمپوں میں مہاجر خواتین اور بچے مستقل خوف کا شکار رہتے ہیں۔ بچوں اور عورتوں کو قطاروں میں کھڑے ہو کر کھانا حاصل کرنا پڑتا ہے اور زیادہ تر جھگڑے بھی اسی دوران رونما ہوتے ہیں۔

یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں اور شیلٹر ہاؤسز میں صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے کارکنوں اور وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے مطابق تارکین وطن میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔

یونان کے شمالی ایجیئن کے علاقے، جس میں لیسبوس، شیوس اور ساموس جزیرے بھی شامل ہیں، کی پولیس کے ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ’’تارکین وطن اب ردِ عمل دکھا رہے ہیں، وہ ان جزیروں سے باہر نکلنا چاہتے ہیں، جس کے نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ ایک محقق کا کہنا ہے کہ افواہیں پھیلنے اور معلومات اور قانونی مدد کی عدم فراہمی کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہو رہی ہے۔ پاکستان، افغانستان اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ انہیں شامی مہاجرین کی طرح اہمیت نہیں دی جاتی۔

جرمنی اور اٹلی نئی امیگریشن پالیسی پر متفق

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید