کشمیر: کرفیو کے دوران بچے کیسے تعلیم حاصل کرتے رہے؟
29 اگست 2016آٹھ جولائی کو ایک علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد حکام نے اسکول اور کالجوں کو دو روز بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایک کشمیری استاد غلام رسول کامبے نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ بچے گھروں میں رہنے کی وجہ سے بے چین ہو گئے تھے ، جس کی وجہ سے ان کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے تین اگست کو اپنے گاؤں میں بچوں کے لیے ایک مرکز کھولا ، جس میں انہیں تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کے بعد سے سری نگر سے جنوب کی جانب واقع اس گاؤں اور اطراف کے علاقوں میں اس طرح کے درجنوں مراکز کھل چکے ہیں۔ غلام رسول کہتے ہیں، ’’ ردعمل بہت مثبت تھا۔ ہمارے پاس طلبہ کی تعداد آٹھ سو تک ہے۔ ساتھ ہی والدین بھی بچوں کو ایسے مراکز میں بیجنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔‘‘
بچے شادی ہالز اور مساجد میں قائم ان اسکولوں تک پہنچنے کے لیے خفیہ راستے استعمال کرتے رہے تاکہ وہ کرفیو کے دوران پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی نظروں میں نہ آئیں۔ یہ بچے اکثر میز اور کرسیوں کی قلت کی وجہ سے زمین پر بیٹھنے پر مجبور تھے اور اکثر کتابیں بھی ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔ سولہ سالہ ایک بچے منیر وانی کے مطابق اسے اپنے طور پر تعلیم حاصل کرنے کا ایک عمل قرار دیا جا سکتا ہے، ’’یہ کتابوں سے جڑے رہنے کا ایک طریقہ کار تھا‘‘۔ وانی کرفیو کے دوران ایک مسجد میں عارضی طور پر قائم کیے جانے والے ایک اسکول میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ان کے بقول اسی جگہ دوستوں سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی، ’’ ہم باہر نہیں جا سکتے تھے‘‘۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تازہ پر تشدد واقعات میں 68 افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد نو ہزار سے زیادہ بنتی ہے۔ حکام نے پیر 29 اگست کو کشمیر میں کرفیو کی پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 52 روز تک کرفیو نافذ رہا۔