ڈومینیک اسٹراؤس کاہن کی وطن واپسی مگر سیاسی مستقبل غیر واضح
4 ستمبر 2011انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سابق سربراہ فرانس کے مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے پیرس پہنچے۔ پولیس کی بھاری جمیعت ہوائی اڈے پر موجود تھی۔ ہوائی اڈے پر تھوڑے سے لوگوں نے تالیاں بجا کر ان کا خیر مقدم بھی کیا۔ ایئر پورٹ پر کاہن نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کسی قسم کی بات چیت سے گریز کیا۔ بعد میں وہ وسطی پیرس کے انتہائی قیمتی رہائشی علاقے Place des Vosges میں واقع اپنے اپارٹمنٹ پہنچے۔
ڈومینیک اسٹراؤس کاہن کی وابستگی فرانس کی سوشلسٹ پارٹی کے ساتھ ہے۔ امریکہ میں جنسی اسکینڈل کے منظر عام پر آنے سے ان کے صدارتی امیدوار بننے کی خواہش بھی دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ سوشلسٹ پارٹی کے سینئر اہلکار اور سابق وزیر تعلیم و ثقافت جیک لانگ کا کہنا ہے کہ کاہن کی واپسی پر وہ اور ان کے کئی ساتھی بہت خوش ہیں کیونکہ ان کا تعلق سوشلسٹ پارٹی کے ساتھ ہے۔ پیرس میں بہت سارے لوگ کاہن کے مقام اور مرتبہ کی مناسبت سے جنسی اسکینڈل پر نالاں اور شرمندہ بھی ہیں۔ کاہن کی پبلک افیئرز ٹیم نے میڈیا کو بتایا ہے کہ آج وہ کوئی بیان جاری نہیں کریں گے۔
ڈومینیک اسٹراؤس کاہن کی اپنے وطن واپسی سے اس تین ماہ کی عدالتی رسہ کشی کا خاتمہ ہو گیا ہے جو جنسی زیادتی کے ایک الزام کے تحت شروع ہوئی تھی۔ اس دوران انہیں ہتھکڑیاں پہننے کے علاوہ جیل بھی جانا پڑا۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ایک امریکی عدالت نے منسوخ کرنے کے بعد انہیں رہا کردیا تھا۔ وکلائے استغاثہ کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ کے جھوٹ اس کے الزامات کو ثابت کرنے میں حائل ہیں اور اس بنا پر وہ مقدمے کی پیروی نہیں کر سکتے۔
ڈومینیک اسٹراؤس کاہن کی سوشلسٹ پارٹی کے بعض کارکن اور حلیف چھوٹی پارٹیوں کا خیال ہے کہ عدالت نے ان پر عائد الزامات کو منسوخ کردیا ہے اور استغاثہ بھی الزامات سے دستبردار ہو گیا اور اس صورتحال میں وہ اگلے برس کے صدارتی الیکشن کے لیے ممکنہ امیدوار بن سکتے ہیں۔ تاہم بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کاہن کے امیج کو جو نقصان پہنچ چکا ہے اس باعث ان کا سیاسی مستقبل واضح نہیں ہے۔ ان کے ساتھی اور پیرس کے نواح کے میئر Francois Pupponi کا کہنا ہےکہ فرانس کے سابق وزیر خزانہ کو فی الحال وقت کی ضرورت ہے تا کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکیں۔ کاہن بھی پیرس کے نواح کے سن 1990 کی دہائی میں میئر رہ چکے ہیں اور یہی علاقہ ان کا سیاسی گڑھ خیال کیا جاتا ہے۔
سوشلسٹ پارٹی کے بیشتر کارکنوں نے اسٹراؤس کاہن کی جگہ اب اگلے سال کے صدارتی انتخابات کے لیے فرانسواں اولانڈ (Francois Hollande) کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے۔ اسی طرح ایک اور امیدوار مارٹین اُوبری (Martine Aubry) بھی اس ریس میں ہیں۔ بعض فرانسیسی مبصرین کا خیال ہے کہ کاہن امکاناً یورپ کی سطح پر کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ فرانس میں رائے عامہ کے اعداد و شمار کے مطابق کاہن کو دو تہائی افراد نے جنسی اسکینڈل کے بعد مسترد کردیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ