پاکستان کے لیے آئندہ چار ہفتے اہم ترین
26 اکتوبر 2008پاکستان کی معیشت کو درپیش مسائل اور خاص طور پر مالیاتی بحران کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے دس اکتوبر کے بعد سے اپنی ویب سائٹ پر غیر ملکی ذر مبادلہ کے ذخائر کی صورتحال کا اپ ڈیٹ نہیں دیا۔
دس اکتوبر کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے کل ذخائر کی ما لیت سات اعشاریہ پانچ ارب ڈالر تھی ۔ جن میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر سونے کے ذخائر کی صورت میں تھے جبکہ تجارتی بینکوں کے غیر ملکی ذر مبادلہ کے ذخائر کی مالیت کم از کم ڈیڑھ ارب ڈالر تھی۔ اس کے برعکس پاکستان کا ماہانہ درآمداتی بل کم از کم ڈیڑھ ارب ڈالر کے برابر ہے۔ غالباً اسی وجہ سے مشیر خزانہ شوکت ترین نے آئندہ چار ہفتوں کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس دوران عالمی مالیاتی فنڈ سمیت بعض بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے چار سے پانچ ارب ڈالر کی فوری امداد کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تا کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز کے مطابق پاکستان کو بظاہر مجبوراً آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے پڑیں گے تا ہم ان قرضوں کے اثرات مثبت نہیں ہوتے۔ ’’ کسی بھی حکومت پر آئی ایم کے قرضوں کا سیاسی اور سماجی اثر منفی ہوتا ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے اور پیداوار کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہو جائے گی۔لیکن بعض جگہ یہ فارمولا کامیاب ہوا ہے اور بعض جگہ نہیں۔ جیسا کہ پاکستان میں ہم پہلے بھی آئی ایم ایف سے قرضے لے چکے ہیں ۔ اس سے ہماری معیشت تو مستحکم ہوئی ہے لیکن اس کی جو شرائط ہیں وہ سیاسی اور سماجی سطح پر مقبول نہیں ہوئیں ۔‘‘ امریکہ، جاپان اور جرمنی نے ’فرینڈز آف پاکستان‘ نامی غیر رسمی تنظیم کے ذریعے بھی امداد و تعاون کا یقین دلوایا ہے۔ تا ہم بقول سرتاج عزیز اس سے موجودہ بحران سے نکلنے میں کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ دوسری طرف مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ملک کو مالیاتی بحران سے نکالنے کے لیے ہر ممکن طریقے سے قرضے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔