پاکستان کے سیاسی حالات اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمیتں
12 جولائی 2009دوسری جانب حکمراں جماعت پیپلز پارٹی اور اسکی حلیف جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان بھی فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ اس بے یقینی کی صورتحال کو قانونی اور معاشی حلقے ایک دوسرے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
چیف جسٹس کی بحالی میں اہم کردار ادا کرنے والے سول سوسائٹی کے ارکان اور ماہرین معاشیات قیمتوں کے تنازعہ کو کسی اور نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی مہم میں بنیادی نکتہ پارلیمنٹ کی بالادستی تھا۔ لیکن جب پارلیمنٹ نے متفقہ طورپر بجٹ تجاویز میں نئی قیمتوں کی منظوری دے دی ہے تو ایسے میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے اس میں مداخلت نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔
معاشی تجزیہ نگار یوسف نذر کا کہنا ہے کہ اقتصادی معاملات پیچیدہ ہوئے ہیں لہٰذا عدلیہ اس میں مداخلت نہیں کرتی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تنازعہ کا جامع حل عدلیہ کی طرف سے نہیں آسکتا۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ اختیارات سے تجاوز کرے تو سپریم کورٹ ایسے فیصلوں کو رد کرسکتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عوام بھوک اور افلاس کا شکار ہو رہے ہیں ایسے میں عوام کی دادرسی صرف عدلیہ کرسکتی ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر بخش رئیس صدارتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے عمل کو سیاسی محاذآرائی قرار دیتے ہیں۔
حکومت کی حلیف جماعت مسلم لیگ ن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو درست تصور کرتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سیکیرٹری اطلاعات احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت غیرمقبول فیصلوں کی حمایت نہیں کرسکتی۔
سیاسی مبصرین کے بقول سپریم کورٹ کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے فیصلہ کو جس طرح عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت کو اپنے شاہانہ اخراجات کم کرنے ہونگے ورنہ عوامی ردعمل حکومت مخالف تحریک کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔