1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضے، حالات کس قدر سنگین ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
16 اگست 2022

پاکستان کے بڑھتے ہوئی اندرونی اور بیرونی قرضوں پر معاشی ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر قرضے اسی رفتار سے لیے جاتے رہے تو آئندہ دو عشروں میں پاکستان کا قرض 400 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4FbT1
Pakistan Textilinsdustrie
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم تقریبا ساٹھ ٹریلین روپے ہو گیا ہے جبکہ اندرونی قرضوں کا حجم بھی تیس ٹریلین روپے کے قریب ہے۔

 یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب پاکستان آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کی امید کر رہا جب کہ دوست ممالک کی طرف بھی اسی امید اسے انہیں دیکھ رہا ہے۔

قرضوں کے مسئلے پر سیاست

 قرضوں کے مسئلے کے حوالے سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی اتحادی حکومت کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لیے جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے نون لیگ پر الزام لگایا ہے کہ اس نے قرضے لے کر ایسے پروجیکٹس شروع کیے، جو معاشی اعتبار سے تباہ کن تھے اور کئی کمپنیوں کو ان پروجیکٹس کی وجہ سے اربوں کی سبسڈی بھی حکومت کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے اور قرضے

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے قرضوں کا حجم انیس سو اسی کی دہائی میں بہت کم تھا لیکن جب سے اس اسلامی ملک نے عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو نافذ کرنا شروع کیا ہے، اس کے لیے قرضوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم اس وجہ سے ہے کہ انیس سو اسی کی دہائی سے لے کر اب تک تمام حکومتوں نے نیو لبرل پالیساں اپنائی ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کو منافع بخش ادارے بیچنے پڑے اور ملک کا ریونیو کم ہوا۔

Pakistan Textilinsdustrie
حکومت مہنگی ایل این جی خرید کر ٹیکسٹائل، اسپورٹس آئٹمز، سرجیکل آلات اور دوسری ایکسپورٹ کرنے والی فیکٹریوں کو بہت سستی دے رہی ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دوسری طرف ہم نے پرائیویٹ سیکٹر کو نوازا۔ آج بھی حکومت مہنگی ایل این جی خرید کر ٹیکسٹائل، اسپورٹس آئٹمز، سرجیکل آلات اور دوسری ایکسپورٹ کرنے والی فیکٹریوں کو بہت سستی دے رہی ہے، جس سے حکومت کا امپورٹ بل بھی بڑھ رہا ہے اور اخراجات بھی۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وہ مذید قرضے لے رہی ہے۔‘‘

 قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض

دنیا کے کئی ممالک قرضے لے کر پیداواری کاموں میں لگاتے ہیں تا کہ ملک کی معیشت مضبوط ہو لیکن پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ حکومتیں ایسے پروجیکٹس شروع کرتی ہیں، جن سے آمدنی حاصل نہیں ہوتی بلکہ الٹی حکومت کو سبسڈی دینا پڑتی ہے۔

خالد بھٹی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے بقول صرف سی پیک کے کچھ ایسے پروجیکٹس ہیں، جن پر جو پیسہ خرچ ہوا ہے وہ پیداواری کاموں میں ہوا ہے، ''لیکن عمران خان کے دور حکومت میں 70 فیصد قرضے کو صرف اخراجات اور آمدنی میں جو تفریق ہے، اس کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جبکہ بقیہ 30 فیصد قرضہ اور سود ادا کرنے کے لیے خرچ کیا گیا۔‘‘

عام آدمی کی مشکلات

پاکستان میں حالیہ برسوں میں کمر توڑ مہنگائی آئی ہے، جس کی وجہ سے غریب آدمی کا دو وقت کا گزراہ بہت مشکل ہوگیا ہے جب کہ متوسط طبقے کے معاشی مسائل بھی اس مہنگائی کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں۔

 خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ ان قرضوں کا عوامی مشکلات سے بہت گہرا تعلق ہے، ''عالمی مالیاتی ادارے اپنا قرضہ واپس چاہتے ہیں اور حکومتیں تیل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل کیا جائے۔ اس سے قرضوں کا سارا بوجھ عام آدمی پر آ جاتا ہے اور غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔‘‘

قرض اور جی ڈی پی شرح

واضح رہے کہ کچھ معاشی ماہرین قرضوں کے بڑھنے کو معیوب نہیں سمجھتے بشرط یہ کہ معاشی نمو بھی بڑھ رہی ہو۔ کچھ معاشی تجزیہ نگاروں کے خیال میں کہ قرضوں کے حجم سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے، جسے خالصتاﹰ معاشی انداز میں دیکھنا چاہیے۔

پاکستان کا بیرونی قرضہ 126 بلین ڈالر سے بھی زائد

 وزارت خزانہ میں ماضی میں مشیر کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ قرضوں کے ساتھ ساتھ جی ڈی پی کی شرح بھی دیکھنی ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جی ڈی پی کے مقابلے میں پاکستان کے قرضوں کی شرح بڑھی ہے، جو جون دو ہزار اکیس میں انہتر اعشاریہ چار تھی اور جون دو ہزار بائیس میں اکہتر اعشاریہ چار فیصد ہو گئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پبلک فنانشیل مینیجمنٹ میں کمزوریاں ہیں۔‘‘

تاہم ڈاکٹر خاقان نجیب پر امید ہیں کہ یہ شرح کم ہو جائے گی، ''میرے خیال میں سالانہ یہ شرح ایک سے دو فیصد تک کم ہو جائے گی اور کچھ برسوں میں یہ جی ڈی پی کا ساٹھ فیصد ہو جائے گی۔‘‘

بلند قيمتيں اور قرض کا جال، ترک شہری دلدل ميں پھنس گئے