1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ذیابیطس میں اضافہ: طبی ماہرین کو تشویش

عبدالستار، اسلام آباد
30 دسمبر 2021

طبی ماہرین نے پاکستان میں ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے مریضوں کی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ذیابیطس سمیت صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے صحت کا بجٹ فوری طور پر بڑھایا جائے۔

https://p.dw.com/p/4502L
Symbolbild | Diabetes bei Kindern
تصویر: CHASSENET/BSIP/picture alliance

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور ان مریضوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو ذیابیطس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنے اعضا بھی کٹوانے پڑ رہے ہیں۔

کورونا وائرس، مختلف افراد پر مختلف اثر کیوں؟

کورونا وائرس مخمصہ، ایبوپروفین کی گولی کھانا ہے یا نہیں؟

گزشتہ ماہ کراچی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈابیٹک ایسویسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں تقریبا سالانہ دو لاکھ افراد ذیابیطس کی وجہ سے اپنے پیر یا دوسرے اعضا کٹوا رہے ہیں۔

ڈاکٹر باسط کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ ذیابیطس کے مریض ہیں اور ان میں سے پچاس لاکھ ایسے ہیں جنہیں اس حوالے سے طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے 20 لاکھ مریضوں کو فٹ السر ہوجاتا ہے اور ان 20 لاکھ میں سے دو لاکھ کے قریب افراد کو اپنے پیر کٹوانے پڑتے ہیں جبکہ اس کی روک تھام ممکن ہے۔

پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ اعضا کٹوانے والے ان مریضوں میں سے 70 فیصد آپریشن کے پانچ سال کے اندرہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

ذیابیطس کے مریض اور رشتے دار اس صورت حال سے بہت پریشان ہیں۔ اڑتیس سالہ منی الریاض کے والد کو ذیابیطس کی وجہ سے اپنی دونوں ٹانگیں کٹوانی پڑیں، جس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔ منی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میرے والد کے خاندان میں ذیابیطس کا مرض وراثتی طور پر چلا رہا ہے۔ پنجاب کے علاقے کوٹلہ مغلاں جام پور سے تعلق رکھنے والی منی کا کہنا تھا کہ ان کے والد زمین دار تھے اور انہیں 25 سال سے زائد عرصے سے یہ بیماری لاحق تھی۔‘‘

اعضا کٹوانے کی نوبت کیوں آئی؟ اس سوال کے جواب میں منی نے بتایا، ''میرے والد دوہزار نو میں عمرے کے لیے سعودی عرب گئے، جہاں انہیں بہت زیادہ پیدل چلنا پڑا اور اس کی وجہ سے ان کے پیروں میں چھالے ہوگئے اور زخم شدید ہوگئے۔ ڈاکٹر نے اکتوبر 2009 میں ان کی ٹانگ کاٹ دی۔ اس کے بعد ان کا دسمبر 2010 میں ایکسیڈنٹ ہوا اور شوگر کی وجہ سے ان کے زخم شدید ہوگئے جو گینگرین میں تبدیل ہوگئے اور ڈاکٹروں نے پھر مشورہ دیا کہ دوسری ٹانگ بھی کانٹے پڑے گی اور جنوری 2010 میں ان کی دوسری ٹانگ بھی کٹ گئی۔ اور اس کے کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے والد کے چاروں بھائیوں کو ذیابیطس تھا، جس میں سے ایک اور بھائی کے دونوں پیر کاٹے گئے اور اس کے کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ ''میرے خیال میں اب اس طرح کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے اور یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے اور ذیابیطس کی وجہ سے لوگ بڑے پیمانے پر اعضا کٹوا رہے ہیں۔‘‘

صحت کا بجٹ بڑھایا جائے

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا کہنا ہے کہ جب تک صحت کے بجٹ کو بڑھایا نہیں جائے گا ذیابیطس سمیت کسی بڑھتی ہوئی بیماری کو روکنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سری لنکا اپنے جی ڈی پی کا 6 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے بنگلہ دیش 3 فیصد سے زیادہ اور بھارت کا بھی دو فیصد سے زیادہ کا بجٹ ہے جبکہ ہم بمشکل جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ سات فیصد خرچ کرتے ہیں اور اس کا بھی ستر فیصد حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ بڑے بڑے اسپتالوں میں مہنگی مشینیں خریدی جا رہی ہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بنیادی دوائیں میسر ہیں نہ انسولین۔‘‘

کیا ذیابطیس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہے ؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب مرض کو ابتدائی طور پر کنٹرول نہیں کیا جائے گا تو اس میں شدت آئے گی۔ ''اور اس کی وجہ سے پھر اعضا کٹوانے پڑتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر ٹیپو سلطان کے مطابق اس کی روک تھام کے لیے حکومت کو فوری طور پر بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔ ''کراچی جیسے بڑے شہر میں تین بڑے سرکاری اسپتال تھے۔ بجائے اس کے کہ حکومت اور سرکاری ہسپتال قائم کرتی، اس نے عباسی شہید ہسپتال کو بھی بند کر دیا ہے اور سندھ حکومت اس کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ صرف کراچی میں کم از کم جہاں سول جیسےدس سرکاری ہسپتال ہونے چاہیے اس کے علاوہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی کو پورا کرنا چاہیے دوائیوں کو وافر مقدار میں فراہم کرنا چاہیے۔ انسولین اور ذیابیطس سے متعلق دوسری دوائیں تمام ہسپتالوں میں میسر ہونی چاہیے تاکہ اس کا تدارک وقت پر کیا جا سکے۔‘‘

آگاہی کی ضرورت

ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے سابق عہدیدار ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا ہے کہ جب تک لوگ لائف اسٹائل تبدیل نہیں کریں گے ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کم نہیں ہوگی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں یہ نمبر قابل اعتماد کے تقریبا دو لاکھ کے قریب لوگوں کو اپنے اعضا ذیابیطس کی وجہ سے کٹوانے پڑتے ہیں۔ کیونکہ ماضی میں ساٹھ سال یا اس سے زیادہ کی عمر والوں کو ذیابیطس ہوتا تھا۔ اب ہر شخص کو ذیابیطس ہو رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا لائف اسٹائل ہے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالرشید کے مطابق فارما انڈسٹری اس حوالے سے کوئی کام نہیں کرے گی۔ ''کیونکہ ان کو صرف پیسے کمانے ہیں اور جتنے زیادہ مریض ہوں گے اتنا زیادہ ان کو منافع ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت مل کر بڑے پیمانے پر شعور بیدار کریں۔ اسکول کالجز اور دوسری جگہوں پر عوام کو آگاہ کریں اور لوگوں کو اپنا لائف اسٹائل تبدیل کرنے پر مجبور کرے اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے اس مرض کا۔‘‘