پاکستان اور چین کی مشترکہ فضائی مشقوں کا آغاز
9 اپریل 2016شنگھائی سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان اور چین دونوں ایک دوسرے کو ’ہر طرح کے حالات میں قریبی دوست‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کی اس قربت کی ایک وجہ بیجنگ اور اسلام آباد میں مشترکہ ہمسایہ ملک بھارت کے بارے میں پائی جانے والی سوچ بھی ہے اور یہ خواہش بھی کہ ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جائے۔
ان تربیتی مشقوں کے بارے میں چینی وزارت دفاع کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ایک اعلان میں کہا گیا ہے، ’’چینی فضائیہ تمام ملکوں اور خطوں کے ساتھ اپنی مکالمت اور تعاون کو فروغ دینے کی امید کرتی ہے۔‘‘
تربیتی نوعیت کی ان پاک چین فضائی مشقوں کو ’شاہین پنجم‘ کا نام دیا گیا ہے، جو قریب تین ہفتوں تک جاری رہنے کے بعد 30 اپریل کو اپنی تکمیل کو پہنچیں گی۔
چین کا پاکستان سے طویل عرصے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ اسلام آباد چین کے مغربی علاقے سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے ان عسکریت پسندوں کو افغان سرحد کے قریب اپنے ان قبائلی علاقوں سے باہر نکال دے، جہاں یہ چینی مسلمان عسکریت پسند موجود ہیں۔
پاکستان میں فاٹا یا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے کہلانے والے یہ پختون سرحدی خطے ایسے علاقے ہیں، جہاں لاقانونیت پائی جاتی ہے اور اسی لیے وہاں القاعدہ، طالبان اور کئی دیگر عسکریت پسند گروہوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
دوسری طرف دفاعی حوالے سے پاکستان اپنی فضائیہ کو زیادہ جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتا ہے۔ اسلام آباد کے پاس امریکی، فرانسیسی اور چینی ساخت کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا ایسا فضائی بیڑہ موجود ہے جو پاکستانی حکام کے مطابق بھارت کی فضائی طاقت یا پھر ملک کے اندر شدت پسندوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنانے کے لیے زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا۔
پاکستان ایئر فورس کے نائب سربراہ محمد اشفاق آرائیں نے ابھی دو روز قبل ہی روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس وقت پاکستانی فضائی بیڑے میں زیادہ تر بوجھ امریکی ساخت کے ایف سولہ طیارے اٹھا رہے ہیں۔
اسی انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کے لیے امریکا سے مزید ایف سولہ جنگی طیارے خریدنا اقتصادی حوالے سے موزوں نہیں ہو گا اور اسی لیے پاکستان اب چین کے ساتھ مل کر جے ایف سترہ طرز کے جنگی طیاروں کی مشترکہ پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔