1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور افغانستان کے ملٹری کمانڈر ہاٹ لائن پر

30 دسمبر 2015

افغانستان اور پاکستان کے فوجی کمانڈروں کے درمیان آج سے ہاٹ لائن نے کام شروع کر دیا ہے۔ اِس فون ہاٹ لائن پر دونوں طرف کے ملٹری کمانڈ سرحدی علاقوں میں کسی بھی ہنگامی صورت حال پر بات چیت کر سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1HWHE
جنرل راحیل شریف نے گزشتہ اتوار کے افغان صدر سے ملاقات کی تھیتصویر: ARG

افغانستان اور پاکستان کے ملٹری کمانڈروں کے درمیان ہاٹ لائن قائم ہو جانے کی خبر جاری کرتے ہوئے پاکستانی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا رابطہ ہے۔ یہ ٹیلی فون ہاٹ لائن دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان قائم کی گئی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اِس کی تصدیق کی ہے کہ آج بدھ کے روز ہاٹ لائن قائم ہونے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے ملٹری آپریشنز کے شعبوں کے سربراہان نے آپس میں گفتگو بھی کی۔

پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق یہ فیصلہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے گزشتہ اتوار کے دورہٴکابل کے موقع پر کیا گیا تھا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ گزشتہ ہفتوں کے دوران افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات میں طے ہونے والے نکات کو عملی شکل دینے کے تناظر میں تھا۔

Pakistans Premier Sharif mit afghanischem Präsidenten Ghani in Kabul
افغان صدر اشرف غنی پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہتصویر: AFP/Getty Images/S. Marai

افغان صدر پاکستان کے توسط سے طالبان اور کابل حکومت کے درمیان معطل بات چیت کا احیاء چاہتے ہیں۔ کابل حکومت کو قوی یقین ہے کہ اگر پاکستان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تو طالبان افغانستان میں مسلح مزاحمت جاری رکھے ہوئے بھی حکومت کے ساتھ بات چیت کی میز پر بیٹھ سکتے ہیں۔ افغان طالبان اور کابل حکومت کے نمائندوں کے درمیان رواں برس جولائی کے اوائل میں مذاکراتی دور کی میزبانی پاکستان نے کی تھی۔

رواں برس جولائی میں پاکستان کو اشرف غنی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور کی میزبانی کرنا تھی تاہم طالبان کی طرف سے اپنے قائد ملا عمر کے دو سال پہلے انتقال کی خبر منظرِ عام پر آنے کے بعد یہ مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان کی عسکری کارروائیوں میں شدت کی ایک وجہ اگلے دنوں میں کابل حکومت سے شروع کیے جانے والے ممکنہ مذاکرات کے دوران اپنی پوزیشن زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانا اور زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کرنا ہے۔