1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی فوج مداخلت کرے، کشمیری عسکریت پسند رہنما کا مطالبہ

2 ستمبر 2019

ایک کشمیری عسکریت پسند رہنما نے پاکستان سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے مشروط طور پر کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عوام کے تحفظ کے لیے اپنے دستے وہاں بھیجنا چاہییں۔

https://p.dw.com/p/3Oslf
سری نگر میں گشت کرتے بھارتی پیراملٹری دستےتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں مظفر آباد سے ملنے والی رپورٹوں میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ اس کشمیری عسکریت پسند رہنما نے کہا کہ نئی دہلی میں نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو کیے گئے فیصلے کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد اقوام متحدہ کو اب وہاں اپنے امن دستے بھیجنا چاہییں۔ تاہم اگر عالمی ادارہ ایسا نہیں کرتا، تو اسلام آباد کو اپنے فوجی دستے اس لیے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھیج دینا چاہییں کہ وہ وہاں مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کر سکیں۔

Syed Salahuddin, United Jihad Council
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدینتصویر: Getty Images/AFP/Rizwan Tabassum

اس کشمیری عسکریت پسند رہنما کا نام سید صلاح الدین ہے، جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف سرگرم ایک درجن سے زائد مسلح گروپوں کے اتحاد کے سربراہ بھی ہیں۔ سید صلاح الدین نے کہا، ''یہ پاکستان کی مسلح افواج کا فرض بنتا ہے، جو کہ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست ہے جو ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہو کر وہاں کے عوام کی عسکری سطح پر مدد کریں۔‘‘

مطالبہ عمران خان پر داخلی دباؤ کا عکاس

اس بارے میں روئٹرز نے اپنے ایک مراسلے میں لکھا ہے کہ سید صلاح الدین کا یہ مطالبہ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پر اس داخلی دباؤ کی عکاسی بھی کرتا ہے، جس کے تحت یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد کو نئی دہلی حکومت کے پانچ اگست کے اقدام کے بعد اپنے طور پر کشمیر سے متعلق فیصلہ کن قدم اٹھانا چاہییں۔

MSC Qamar Javed Bajwa  Armeechef von Pakistan
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہتصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe

اس دباؤ کے برعکس عمران خان حکومت مودی حکومت کے کشمیر سے متعلق فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اب تک عالمی سطح پر صرف ایک وسیع تر سفارتی مہم پر ہی اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

'صرف سفارتی کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہوں گی‘

اس پس منظر میں سید صلاح الدین نے پاکستان کے زیر انتظام جمو کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں سینکڑوں افراد کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اتوار یکم ستمبر کے روز کہا، ''آج کے بہت مشکل حالات میں، (کشمیر سے متعلق) صرف سفارتی کوششیں اور سیاسی تائید و حمایت ہی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گی۔‘‘

بھارت میں مودی حکومت نے پانچ اگست کے اپنے بہت متنازعہ ہو جانے والے فیصلے کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس منقسم ریاست کے بھارت کے زیر انتظام حصے کو آئندہ مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ ان میں سے ایک لداخ ہو گا اور دوسرا جموں اور کشمیر۔ مزید یہ کہ آئندہ ان دونوں نئے علاقوں کی حیثیت بھارت کے یونین علاقوں کی ہو گی۔

فیصلے کا نفاذ اکتیس اکتوبر سے

جب سے نئی دہلی نے جموں کشمیر سے متعلق اپنا یہ متنازعہ فیصلہ کیا ہے، تب سے کشمیر میں مسلسل ایک سکیورٹی لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے اور اس خطے کا باقی ماندہ دنیا سے مواصلاتی رابطہ بھی زیادہ تر کٹا ہوا ہے۔

اس کے علاوہ بھارتی حکومت کشمیر میں نہ رہنے والے بھارتی شہریوں کو یہ حق دینے کا اعلان بھی کر چکی ہے کہ آئندہ وہ کشمیر میں املاک بھی خرید سکیں گے۔ اب تک ایسا کرنا قانونی طور پر ممنوع تھا۔

مودی حکومت نے نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر سے متعلق اپنا گزشتہ ماہ کے فیصلے پر ابھی تک عمل درآمد شروع نہیں کیا۔ حکومتی منصوبے کے مطابق یہ عمل درآمد 31 اکتوبر سے شروع ہو گا اور تب نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کی بھارتی آئین کے تحت خصوصی حیثیت عملی طور پر ختم ہو جائے گی۔

م م / ا ا / روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں