مقدونیا میں نسلی خلیج کو پر کرنے والا اسکول
20 اگست 2010یہ ہی وہ وجہ بھی ہے جس کے پیش نظر Nansen Elementary School نامی یہ تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں مقدونیا کے مقامی اکثریتی باشندوں کے بچوں اور البانوی نسل کے بچوں کو اس طرح ایک دوسرے کے قریب لایا جائے گا کہ ان کے درمیاں افہام وتفہیم میں اضافہ بھی ہو سکے ، اپنے ان والدین کے بھی رویوں کے برعکس جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مسلح خونریزمقابلہ بازی پر اتر آئے تھے۔ اس اسکول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پورے یورپ کے لیے ایک ماڈل تعلیمی ادارہ بن سکتا ہے ۔
اپنی طرز کے اس اولین تعلیمی ادارے کے ہال میں ایک بہت بڑے بورڈ پر اس اسکول کا موٹو بھی بڑے بڑے الفاظ میں تحریر ہے، ’ہو سکتا ہے کہ ہم سب مختلف قسموں کی مچھلیاں ہیں لیکن اسکول میں ہم سب اکٹھے تیرتے ہیں ‘
2001 میں مقدونیا میں ملکی حکومت کے خلاف البانوی نسل کے شدت پسند نظریات والے افراد نے جو مسلح بغاوت شروع کی تھی وہ ایک سال سے بھی کم عرصے تک جاری رہی تھی۔ اس دوران اگرچہ چند درجن ہلاکتیں ہوئی تھیں لیکن یہ خدشات بہر حال پیدا ہوئے تھے کی مقدونیا یکدم اس طرح کی جنگی صورتحال کا شکار ہو سکتا تھا، جیسی ماضی قریب میں کو سووو اور بوسنیا کے علاقوں میں دیکھنے میں آئی تھی۔
اس مسلح تنازعے کا خاتمہ اس طرح ممکن ہوا تھا کہ مغربی دنیا کی طرف سے کی جانے والی مداخلت کے نتیجے میں مقدونیا میں ریاستی حکام اس امر پر آمادہ ہو گئے تھےکہ البانوی نسل کےمسلمان اقلیت کو زیادہ سے زیادہ حقوق دئے جائیں اور ان کی خدمات اور ضروریات کو تسلیم بھی کیا جائے ۔ ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ مقدونیا کی دو اعشاریہ دو ملین کی آبادی میں سے زیادہ تر آبادی مسیحی عقیدے کی حامل ہے اور یورپ کی اس ریاست میں البانوی نسل کے مسلمانوں کی تعداد ایک چوتھائی کے قریب بنتی ہے ۔
لیکن مقدونیا نسل کے باشنوں اور البانوی نسل کی اقلیت کے مابین راستے کا پتھر ہونے والی ایک حقیقت وہاں کی زبان بھی ہے۔ مقدونیا میں اقلیتی آبادی یا اقلیتی نسل کے باشندوں کی بہت معمولی تعداد ہی اتنا تردد کرتی ہے کہ وہ اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان بھی سیکھ لے۔
مقدونیا کا یہ اسکول ، جہاں طلبہ اور طالبان کو پرائمری کی سطح کی تعلیم ان دونوں زبانوں میں دی جاتی ہے، مقدونیا کے دارلحکومت اسکوپےسے مغرب کی طرف تیس کلو میٹر کے فاصلے پر جبکہ کوسوووکی سرحد سے تقریبا 45 کلو میٹر کی دوری پرتعمیر کیا گیا ہے۔
اس اسکول کا افتتاح 2002 ء میں ہوا تھا اور تب وہاں داخلہ لینے والے البانوی بچوں کو مقدونیا کی زبان کا ایک بھی لفظ نہیں آتا تھا جبکہ مقدونیا کا کوئی بھی بچہ البانوی زبان نہیں بول سکتا تھا لیکن آج صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔
اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی عمریں چھ اور آٹھ برس کے درمیان ہوتی ہیں لیکن وہ اپنی اپنی مادری زبان کے علاوہ اپنے ساتھی دیگر بچوں کی مادری زبان کا کچھ نہ کچھ حصہ سمجھ سکتےہیں۔ اس اس اسکول کے منصوبے کے نگران ویٹون زکولی کہتے ہیں کہ یہ تعلیمی ادارہ مکالمت اور مصالحت کا ایک ایسا منفرد منصوبہ ہے جو اب تک بہت کامیاب ثابت ہو رہا ہے۔
رپورٹ :عصمت جبیں
ادارت :مقبول ملک